7۔ تعدد از و اج
قرآن میں ایک سے زیادہ شادی کی اجازت دی گئی ہے۔ اس سلسلہ میں جو حکم آیا ہے اس کا ترجمہ یہ ہے:اگر تم کو اندیشہ ہو کہ تم یتیموں کے معاملہ میں انصاف نہ کر سکو گے تو عورتوں میں سے جو تم کو پسند ہوں ان سے دو دو، تین تین، چار چار تک نکاح کر لو۔ اور اگر تم کو اندیشہ ہو کہ تم عدل نہ کر سکو گے تو ایک ہی نکاح کر و(4:3)۔
قرآن کی اس آیت میں مردوں کو تعددازواج(polygamy)کیاجازتدیگئی ہے۔ اجازت کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اجازت اُس صورت حال کے لیے ہے جب کہ سماج میں یتیم لڑکوں اور یتیم لڑکیوں کا مسئلہ پیدا ہو گیا ہو۔ گو یا کہ یہ اجازت عام نہیں ہے بلکہ وہ اُس وقت کے لیے ہے جب کہ عورتیںسرپلس ہو گئی ہوں۔ یعنی کسی غیر معمولی حادثہ مثلاًجنگ کی وجہ سے سماج میں مردوں کی تعدادگھٹ جائے اور اُس کے مقابلہ میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہو جائے۔ ایسی حالت میں وقتی سماجی مسئلہ کے حل کے طور پر بطور استثناء یہ اجازت دی گئی کہ مردبقدرِ ضرورت زیادہ شادیاں کر کے سماج میں معتدل ماحول قائم کر یں۔
آیت میں’’د و دو ،تین تین اور چار چار‘‘کے الفاظ آئے ہیں۔ اس میں ایک سے نکاح کا ذکر نہیں۔ اس اندازِبیان سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ مرد کے لیے ایک عورت سے شادی کرنا معمول کی حالت ہے اور اس سے زیادہ تعداد میں شادی کرنا معمول کے خلاف حالت ہے۔ یہ معمول کے خلاف حالت صرف اس وقت قابل عمل ہوتی ہے جب کہ جنگ وغیرہ کی وجہ سے سماج میں عورت اور مرد کی تعداد کے درمیان غیر فطری طور پر نا برابری قائم ہو گئی ہو۔