عورت عصر جدید میں
اکثر بڑے واقعات کے پیچھے کوئی عورت موجود ہوتی ہے ،کبھی براہ راست طور پر اور کبھی بالواسطہ طور پر ۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ ہر بڑی چیز کے آغاز میں کسی عورت کا ہاتھ ہے:
There is a woman at the beginning of all great things.
اس معاملہ کی شاید سب سے بڑی تاریخی مثال ہاجرہ زوجۂ ابراہیم کی ہے۔ ہاجرہ نے اپنی بے مثال قربانی کے ذریعہ تاریخ بشری میں ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ یہ ایک ایسا انقلاب تھا جس کے اثرات ساری دنیا میں محسوس کیے گئے ۔
چار ہزار سال پہلے دنیا کا نقشہ اس سے بالکل مختلف تھا جو آج ہمیں نظر آتا ہے۔ اس وقت ساری دنیا میں شرک(بت پرستی) کا غلبہ تھا۔ صدیوں کے عمل سے شرک نے ایک مکمل تمدن کی صورت اختیار کر لی تھی۔ یہ ایک مشرکانہ کلچر تھا۔ جو عورت اور مرد پیدا ہوتےوہ اسی کے رنگ میں رنگ جاتے۔ اسی حقیقت کی طرف پیغمبر خدا حضرت ابراہیم نے ان الفاظ میں اشارہ کیا تھا:رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ (14:36)۔یعنی، اے میرے رب، ان بتوں نے بے شمار لوگوں کو گمراہ کر دیا۔
مشرکانہ کلچر کے اس عمومی غلبہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ پوری انسانیت شرک اور توہم پرستی کے اوپر قائم ہوگئی ۔ لوگ ان فائدوں سے محروم ہو گئے جو توحید کے زیر اثر انہیں حاصل ہوتا ہے۔ اس وقت خدا کے حکم کے تحت ابراہیم نے ایک دور رس منصوبہ بنایا۔ انہوں نے اپنی زوجہ ہاجرہ اور اپنے بچہ اسماعیل کو لاکر مکہ کے پاس صحرا میں بسا دیا۔
ابراہیم خدا کے پیغمبر تھے ۔ ایک اندازہ کے مطابق، وہ 2160ق م میں پیدا ہوئے اور 1985 ق م میں انھوں نے وفات پائی ۔ ہاجرہ ان کی زوجہ تھیں۔ ان کو ان کے چھوٹے بچے اسماعیل کے ساتھ ایک بے آب و گیاہ صحرا میں آباد کرنا ایک غیر معمولی قربانی کا عمل تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ فطرت کے اس ماحول میں ایک نئی نسل تیار کی جائے جو مشر کا نہ تمدن کے اثرات سے پاک ہو۔ توالد و تناسل کے ذریعہ یہ نسل بنتی رہی۔ یہاں تک کہ اس عمل پر تقریباً ڈھائی ہزار سال بیت گئے۔ اس وقت اس نسل (بنو اسماعیل) کی مطلوب تعداد وجود میں آ چکی تھی۔ چنانچہ 570ء میں اس نسل میں پیغمبر آخر الزماں محمد بن عبد الله صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے ۔
بنو اسماعیل کی نسل ایک بے حد زندہ نسل تھی۔ اس کے افراد میں تمام انسانی صفات (human qualities) پوری طرح موجود تھیں ۔ محمد بن عبد الله صلی اللہ علیہ وسلم کو 610 ء میں مکہ میں نبوت ملی۔ 632 ء میں مدینہ میں ان کی وفات ہوئی ۔ اس مدت میں آپ نے قرآن کی رہنمائی میں زبردست دعوتی عمل کیا۔ یہاں تک کہ ان میں سے دو لاکھ سے زیا دہ عورت اور مرد اپنے آبائی مذہب کو چھوڑ کر آپ کے ساتھ شریک ہو گئے ۔ اس طرح آپ کے پیروں کی ایک طاقتور ٹیم بنی جس نے تاریخ کا سب سے بڑا انقلاب برپا کیا۔
یہی لوگ تھے جنھوں نے سب سے پہلے بادشاہت کے مضبوط نظام کو ختم کیا۔ اس کے بعد شرک اور توہم پرستی کا دور بھی ختم ہو گیا جو قد یم بادشاہت کی سر پرستی میں قائم تھا۔
شرک کیا ہے۔ شرک فطرت کے مظاہر(سورج، چاند،دریا، پہاڑ، وغیرہ) کو پوجنے کا دوسرا نام ہے۔ اس مشرکانہ نظام کے تحت فطرت کے مظاہر پرستش کا موضوع بنے ہوئے تھے۔ جب شرک مغلوب ہوا تو قدرتی طور پر فطرت کے مظا ہر تحقیق وتسخیر کا موضوع بن گئے۔ اس طرح تاریخ میں پہلی بار یہ ہوا کہ توہم پرستی کا دور ختم ہو کر سائنس کے دور کا آغاز ہوا۔
توہم پرستی اور بادشاہت کے خاتمہ ہی کا نتیجہ تھاکہ دنیا میں بتدریج آزادی اور جمہوریت اور مختلف طبقوں کے درمیان مساویانہ اختلاط کا دور شروع ہوا۔ اس کے نتیجہ میں آخر کاروہ نئی دنیا ظہور میں آئی جس کو صنعتی تہذیب(industrial civilization)کہا جاتا ہے۔
یہ تقریباً چار ہزار سال کی کہانی ہے۔ ہاجرہ اور ان کی نسل میں پیدا ہونے والی بعد کی خواتین کی قربانی کا یہ پھل پیغمبراسلامصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہزار سال تک انسانیت کو ملتا رہا۔ اب تقریباً دو صدی سے انسانیت دوبارہ پہلے کی طرح ایک اور بھنور میں پھنس گئی ہے ۔ یہ مادہ پرستی (materialism) کی بھنور ہے۔ پچھلے زمانہ میں اگر دنیا بت پرستی کی برائی سے دو چار تھی تو اب پچھلی دو صدی سے دنیاما دہ پرستی کی برائی میں مبتلا ہے۔ یہ دوسرے دور کی برائی کسی بھی طرح پہلے دور کی برائی سے کم نہیں۔ پچھلے دور کی برائی نے دنیا کو اگر مادی ترقیوں سے محروم کر رکھا تھاتو دوسرے دور میں خود مادی ترقی دنیا کے لیے ہلاکت کا سبب بن گئی ہے۔ اس نے انسان کو روحانی ترقی سے محروم کر رکھا ہے۔
اس ہلاکت کا سب سے برا پہلو یہ ہے کہ نظام اقدار(value system)مکمل طور پر ٹوٹ پھوٹ گیا ہے۔ آج کے مرد اور عورت کے لیے صرف ان کی ذاتی خواہشیں ان کا واحد رہنما ہیں ۔ لوگوں کے درمیان مادی مفادات کی جنگ اپنی بدترین شکل میں جاری ہے۔ ذاتی مسرت (pleasure) کو حاصل کرنا ہی لوگوں کا واحد مقصود بن گیا ہے، خواہ وہ دوسروں کی مسرتوں کا خاتمہ کر کے کیوں نہ حاصل ہو رہی ہو۔
اس صورت حال کا تقاضا ہے کہ دوبارہ دنیا میں ہاجرہ جیسی خواتین پید ا ہوں جو اپنی قربانیوں کے ذریعہ تاریخ کو نیا موڑ دیں، وہ مادہ پرستی کے دور کو دوبارہ توحید پرستی کے دور کی طرف واپس لے جائیں۔
موجودہ تباہ کن صورت حال کا اصل سبب کیا ہے۔ اس کا اصل سبب گھر کے ادارہ (home institution) کا تباہ ہو جانا ہے۔ گھر کا ادارہ لمبی مدت سے انسان کے لیے اقدار پر مبنی تعلیم(value based education)کا مرکز بنا ہوا تھا۔ فطری نظام کے تحت پوری انسانیت ماؤں کی سر پرستی میں تربیت پا کر باہر کی دنیا میں آتی تھی۔ ہر بچہ کے سر پرست اس کی اقدار پر مبنی تعلیم(value education)کا ذریعہ بنے ہوئے تھے۔
یہی خاص وجہ ہے جس کی بنا پر قدیم زمانہ میں کبھی اقدار کے بحران (value crisis) کے وہ حالات پیدا نہیں ہوئے جو موجودہ زمانہ میں عالمی سطح پر دکھائی دیتے ہیں۔
موجودہ زمانہ میں تحریر نسواں(women's lib)اور منفی برابری (gender equality) کے انتہا پسندانہ تصور کے تحت یہ ہوا کہ عورتوں کے لیے یہ زیادہ بڑی چیز سمجھی جانےلگی کہ وہ گھر سے باہر آ کر ہر شعبہ میں مردوں کے دوش بدوش کام کریں ۔ ان عورتوں نے یہ نعرہ دیا— کافی نہ بناؤ،پالیسی بناؤ:
Don't make coffee, make policy
اس نعرہ کے نتیجے میں عورتیں باہر کے شعبوں میں کام کرنے لگیں اور گھر کا محاذ (front) عملاً خالی ہو گیا ۔
اس بنا پر بہت سے مصنوعی مسئلے پیدا ہوئے ۔ مثلاً باہر کی زندگی میں مردوں کے لیے بےروزگاری (unemployment) اور گھریلو زندگی میں بچوں کا اخلاقی تربیت سے محروم ہو جانا ۔
کچھ لوگوں نے اس اخلاقی بحران کا یہ حل پیش کیا کہ اخلاقی تعلیم (value education) کو اسکول کے نصاب میں ایک ضمنی سبجیکٹ کے طور پر شامل کر دیا جائے۔ چنانچہ بہت سے ملکوں میں اس پر عمل کیا گیا گر نتیجہ بالکل بے سود ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ طالب علم اسکول یا کالج میں جو کچھ پڑھتا ہے وہ امتحان پاس کرنے کے لیے پڑھتا ہے، وہ اس کو اپنی سیرت کی تعمیر کے طور پر نہیں لیتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اخلاق کی تعلیم یا سیرت کی تعمیر کا کام اسی انداز پر ہو سکتا ہے جیسا کہ وہ دور قدیم میں ہورہا تھا۔ یعنی ماؤں کی سر پرستی میں گھر کے ادارہ کے ذریعہ۔
اصل یہ ہے کہ یہ کوئی سادہ کام نہیں ۔ یہ تاریخ کے دھارے کو موڑنے کی بات ہے۔ اور تاریخ کے دھارے کو موڑنے کا کام صرف قربانی اوردیرپا عمل(sustained effort)کے ذریعہ ہوسکتا ہے۔ وہ اس طرح نہیں ہوسکتا کہ اسکول یا کالج میں اخلاق کے موضوع پر کچھ توسیعی لکچرس دلائے جائیں یا مارل ٹیچنگ کے نام سے کچھ پمفلیٹس تیار کر کے اس کو اسکول کے نصاب میں شامل کر دیا جائے۔
دور قدیم میں جب تو ہم پرستانہ تمدن کا غلبہ تھا اس وقت تو ہم پرستی کے دور کو ختم کر کے سائنٹفک دور لانے کے لیے خواتین کے ایک گروہ نے قربانی دی۔ اس کی فہرست میں پہلا قابل ذکرنا م ہاجرہ کا ہے۔ ان خواتین نے شہری سہولتوں کو چھوڑ کر صحرا کی خشک زندگی اختیار کی ۔ انھوں نے آرام و راحت کو چھوڑ کر سادگی اور قناعت کا طریقہ اختیار کیا۔ انھوں نے پرسکون زندگی کو چھوڑ کر مسائل سے بھری زندگی کو اپنایا۔ انھوں نے ذاتی خواہشوں کی تسکین کا راستہ چھوڑ کر انسانیت کے وسیع تر مفاد کو اپنے لیے چن لیا۔
اس طرح کی زندگی انہیں چند جنریشن تک گزارنی پڑی۔ اس کے بعد ان کے لیے ہر طرح کی کامیابی کے دروازے کھل گئے۔ یہاں تک کہ ان کے حال پر شاعر کا شعرصادق آیا:
اگر کچھ مرتبہ چاہے تو اس ہستی کو باطل کر
کہ دا نابارور ہوتا ہے پہلے خاک میں مل کر
عام طور پر یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ موجودہ زمانہ میں ہر قسم کی مادی ترقیوں کے باوجود ہماری مطلوب بہتر دنیا نہ بن سکی ۔ آج کی دنیا میں ایک طرف مادی ترقیوں کی چمک دمک ہے اور دوسری طرف انسانی آبادیوں میں منفی رجحانات تیزی سے بڑھ رہے ہیں ۔ مثلاً:نفرت اور تشدد، تناؤ اور ذ ہنی عدم توازن، عدم اطمینان،طلاق، انسانی قدروں کا فقدان، وغیرہ وغیرہ۔
اس صورت حال کا بنیادی سبب صرف ایک ہے۔ اور وہ یہ کہ مرد اور عورت دونوں خارجی کاموں کی ادائیگی میں لگ گئے ۔ اور گھر کے ادارے کو سونا کر کے چھوڑ دیا جہاں سیرت کی تعمیر کا کام ہوتا تھا۔
اس صورت حال کا تقاضا ہے کہ عورت اور مردتقسیم کار کے معروف اصول کو اختیار کر کے اپنی اس تاریخی ذمہ داری کو ادا کریں۔ مردتمدن کی گاڑی کو چلانے کا کام کریں۔ اور جہاں تک عورتوں کا تعلق ہے، وہ اسکول کی تعلیم کا چارج لے کر نسل انسانی کی تیاری کے کام میں لگ جائیں ۔تقسیم کار کا یہ فارمولا ہی واحد فارمولا ہے جس کو اختیار کر کے انسانیت کی نئی تعمیر کی جاسکتی ہے۔ کوئی بھی دوسرا فارمولا اس مقصد کے حصول کے لیے کارآمد نہیں۔
عورتیں انسانی نسل کے لیے معلم اور مر بی کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ قدیم زمانہ میں ہوتا تھا کہ عام عورتوں کو یہ بچے اپنے گھروں میں مل جاتے تھے۔ تقریباًہر بچہ اپنی ابتدائی عمر میں گھر کی خواتین کے زیرِ سایہ رہ کر اپنا اخلاقی تعلیم کا کورس پورا کر لیتا تھا۔ مگر موجودہ دور میں صنعتی انقلاب نے اس صورت حال کو بدل دیا ہے۔ اب بچے اپنی ابتدائی عمر ہی سے اسکولوں میں بھیج دیے جاتے ہیں ۔
تا ہم یہ کوئی مسئلہ نہیں ۔ اس صورت حال کا مطلب صرف یہ ہے کہ اب عورتوں کا مقام عمل (work place) بدل گیا ہے۔ اب وہ گھر سے نکل کر اسکول میں آ گیا ہے۔ ایسی حالت میں عورتوں کا کام یہ ہے کہ وہ بدلے ہوئے حالات کو سمجھیں اور بچوں کے اسکول کی تعلیم کا چارج اپنے ہاتھ میں لے لیں ۔ تاکہ انسان کی تیاری کا جو کام پہلے سادہ انداز میں گھروں کے اندر ہوتا تھا وہ اب زیادہ منظّم انداز میں اسکولوں کے اندر ہونے لگے۔
انسانی نسلوں کی تربیت کے بارے میں عورت کا رول موجودہ زمانہ میں بھی جاری ہے۔ مگر زمانی تبدیلی کی بناپر اس میں ایک فرق واقع ہوا ہے۔ پچھلے زمانہ میں گھر کا ادارہ اس مقصد کے لیے کافی ہوتا تھا۔ اب عورت کو اپنی یہ فطری ذمہ داری اسکول کے ماحول میں ادا کرنا ہے۔
اس زمانی تبدیلی نے ایک اور تقاضا پیدا کیا ہے۔ وہ یہ کہ اب عورت کو سب سے پہلے خود اپنے آپ کو تیار کرنا ہے۔ اس کے بعد ہی وہ اس قابل ہوسکتی ہے کہ وہ اسکول میں اپنے مطلوب کردار کو ادا کرنے کے قابل ہو سکے ۔ وہ تقاضا یہ ہے کہ عورت کو اب باقاعدہ نوعیت کی تعلیم حاصل کرنا ہے۔ اس کو جدیدفنِ تعلیم میں مہارت پیدا کرنا ہے۔ اس کو ڈگری والی تعلیم حاصل کر کے یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ اسکول، بالفاظ دیگر، اپنے توسیعی مقام عمل (extended work place)کا چارج لے کر اپنی فطری ذمہ داری کو ادا کرنے کی پوری طرح اہل ہے۔ موجودہ زمانہ میں عورت اپنی اس ذمہ داری کو پروفیشنل ایجوکیشن کے بغیرادا نہیں کرسکتی۔