تاتاری دور کی خواتین کا کارنامہ
اسلام کی تاریخ ساتویں صدی عیسوی میں شروع ہوئی ۔ پانچ صدیوں تک شاندار سفر کرنے کے بعد تیرہویں صدی میں ایک زبر دست حادثہ پیش آیا۔ تاتاری قبائل ہزار کی تعداد میں اپنے کوہستانی علاقوں سے نکلے ۔ انھوں نے سمرقند سے لے کر حلب تک پوری مسلم سلطنت کو تاراج کر دیا۔ یہاں تک کہ 1258 میں عباسی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔ اس کے بعد نصف صدی کے اندر یہ معجزاتی واقعہ ہوا کہ تاتاری فاتحین کی اکثریت نے دین اسلام قبول کرلیا اور وہ انوکھا واقعہ پیش آیا جس کو پروفیسر ٹی ڈبلیو آرنلڈ(T.W.Arnold) نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔ فاتحین نے مفتوح کے مذہب کو اختیار کرلیا:
The conquerors have accepted the religion of the conqured.
The Preaching of Islam by T.W. Arnold, Feroz sons Ltd, Lahore, 1979, p.2
پروفیسر آرنلڈ نے اس معاملہ میں کا فی تحقیق کی ہے کہ ان فاتحین نے کس طرح اسلام قبول گیا۔ اپنی 508 صفحہ کی کتاب’’دی پریچنگ آف اسلام‘‘میں انھوں نے اس سلسلہ میں مختلف اسباب اور واقعات کا تذکرہ کیا ہے۔ غالباً پروفیسر آر نلڈ کی یہ کتاب پہلی کتاب ہے جس میں ان تاتاری فاتحین کے قبولِ اسلام کوتفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ عام طور پر مسلم علماء اور مورخین نے اس واقعہ کاذکر کیا ہے مگر محض ضمنی طور پر۔مثلاً اقبال نے لکھا ہے:
ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے
مگر اقبال یاکسی اورمسلم شخصیت نے اس کی تفصیل نہیں بتائی کہ ایسا کیوں کر ہوا۔ ٹی ڈبلیو آرنلڈ جو 1892 کے زمانہ میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے پروفیسر تھے،انھوں نے اس دور میں یہ کتاب لکھی۔
پروفیسر آرنلڈ نے اپنی کتاب میں فاتح تاتاریوں کے قبول اسلام کے جو اسباب بتائے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ تاتاریوں نے 1258 ء میں جب عباسی سلطنت کو ختم کیا تو انھوں نے ہزاروں کی تعداد میں مسلمان مردوں اور عورتوں کو پکڑ کر اپنے گھروں میں خادم کے طور پر رکھ لیا۔ یہ عورتیں جوتاتاریوں کے گھروں میں پہنچیں، وہ تاتاریوں کے اوپر اسلام کی تبلیغ کاذریعہ بن گئیں۔ کبھی براہ راست طور پر اور کبھی بالواسطہ طور پر، اُن کے ذریعہ تاتاریوں تک اسلام کا پیغام پہنچتارہا۔
براہِ راست تبلیغ کی صورت تویہ تھی کہ تاتاری اپنے تجسس کے جذبہ کے تحت ان عورتوں (یامردوں)سے سوال کرتے اور پوچھتے کہ تمہارا مذہب کیا ہے۔ بالواسطہ تبلیغ کی صورت یہ تھی کہ ان مسلم عورتوں اور مسلم مردوں کے طریقوں کو دیکھ کر تا تاری اس کی تفصیل پوچھتے ۔ مثلاً وہ ایک دوسرے کو السلام علیکم کہتے ہوئے سنتے تو پو چھتے کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ یا کام شروع کرتے ہوئے ان میں سے کوئی بسم الله الرحمٰن الرحیم کہتا اور اس کوسُن کرتا تاری لوگ پوچھتے کہ یہ کیا چیز ہے۔ اسی طرح کبھی وہ ان کی زبان سے قرآن کی کوئی آیت یا کوئی حدیثِ رسول سنتے اور پھر اس کا مفہوم جاننے کی کوشش کرتے، وغیرہ۔
اس طرح یہ مسلم خواتین(مردوں کے ساتھ) اسلام کی تبلیغ کا ذریعہ بنی رہیں۔ اُن کی وجہ سے ہر گھر میں اسلام کا پُر امن چرچا ہونے لگا۔ یہ طریقہ پوری ایک نسل تک جاری رہا۔ آخرکار اس کے سبب سے(نیز دوسرے اسباب سے)یہ واقعہ ہوا کہ فاتح تاتاریوں کی اکثر تعداد نے اسلام قبول کر لیا ۔ وہ مقام جہاں بظاہر اسلام کی تاریخ ختم ہوگئی تھی، وہیں سے اسلام کی تاریخ دو باره نئی طاقت کے ساتھ شروع ہوگئی۔ اس تاریخ ساز واقعہ میں مسلم عورتوں کا حصہ بھی تقر یباًاتنا ہی ہے جتنا کہ مسلم مردوں کا حصہ۔