عورت معمارانسانیت
قرآن میں حج کے تذکر ہ کے تحت ارشاد ہوا ہے:صفا اور مروہ بے شک اللہ کی یادگاروں میں سے ہیں۔ پس جو شخص بیت الله کا حج کرے یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی حرج نہیں کہ وہ ان کا طواف کرے: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا(2:158)۔
آیت میں شعیرہ(جمع شعائر)کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ شعیرہ کے لفظی معنیٰ یاد گار یا نشانی (symbol)کے ہیں ۔ اس بیان کے مطابق، صفا اور مروہ خدا کی دو نشانیاں ہیں ۔ وہ ایک خدائی واقعہ کی یاد دلاتی ہیں ۔ اسی یاد کو تازہ کرنے کے لیے حکم دیا گیا کہ جو عورت یا مرد حج یا عمرہ کے لیے مکہ جائے وہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرے۔
صفا اور مروہ مکہ کے قریب دو چھوٹی پہاڑیاں ہیں ۔ دونوں کے درمیان تقریباً 7 فرلانگ کا فاصلہ ہے۔ اب سے چار ہزار سال پہلے ایسا ہوا کہ خدا کے پیغمبر ابراہیم یہاں آئے ۔ ابراہیم عراق میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ مختلف علاقوں کا سفر کرتے ہوئے آخر میں مکہ پہنچے۔ یہاں اس وقت صحرا اور خشک پہاڑی کے سوا کچھ نہ تھا۔ کوئی انسانی آبادی یہاں موجود نہ تھی۔ابراہیم نے ایک خدائی منصوبہ کے تحت اپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے چھوٹے بچہ اسماعیل کو یہاں مکہ کے قریب لا کر چھوڑ دیا اور واپس چلے گئے ۔
ان کے ساتھ صرف ایک مشک کے بقدر پانی تھا۔ چند دن کے بعد جب مشک کا پانی ختم ہو گیا تو ہاجرہ پانی کی تلاش میں نکلیں ۔ اس تلاش کے تحت انھوں نے صفا اور مروہ کے درمیان سات چکر لگائے۔ سات چکر کے بعد وہ مایوس ہو کر واپس آئیں تو دیکھا کہ بچہ کے پاس پانی کا ایک چشمہ پھوٹ پڑا ہے۔ یہ وہی چشمہ تھا جو بعد کوزمزم کے نام سے مشہور ہوا۔
صفا اور مروہ کے درمیان ہاجرہ کا سات بار سعی کرنا ایک بڑے مقصد کے تحت تھا۔ چنانچہ وہ خدا کو اتنا زیادہ قابل قدر معلوم ہوا کہ اس نے حکم دے دیا کہ جو لوگ بھی دنیا کے کسی حصہ سے حج اور عمرہ کی عالمی عبادت کے لیے یہاں آئیں وہ صفا اور مروہ کے درمیان سات با رسعی کریں، جیسا کہ ہاجرہ نے کیا تھا۔ چنانچہ آج تک یہ طریقہ حج اور عمرہ کے ساتھ جاری ہے۔ یہ سعی ہر مرد عورت اور ہر چھوٹے اور بڑے کو کرنی پڑتی ہے۔ اس میں کسی بھی مرد یا عورت کا استثنا نہیں۔
ہاجرہ کے اس فعل کی کیا اہمیت تھی کہ تمام دنیا کے لوگوں کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ ہاجرہ کے نقش قدم(footstep)پرچلیں ۔ وہ اہمیت ہاجرہ کے اس غیر معمولی کام کی تھی جس کے لیے ابراہیم نے ان کو اس غیر آباد مقام پر بسایا تھا۔ وہ کام تھا،اپنی زندگی کوقربان کر کے ایک نئی نسل تیار کرنا۔
مکہ کا یہ غیر آباد علا قہ دراصل ایک صحرائی تربیت گاہ کے طور پرمنتخب کیا گیا۔ اس کا مقصد یہ تھاکہ تمدن کی آمیزشوں سے پاک اس مقام پر ایک نئی انسانی نسل تیار ہوں۔ ایک ایسی نسل جوفطرت کے ماحول میں تربیت پائے ۔ جو سادگی اور حقیقت پسندی اور اخلاقی بلندی کی صفات سے متصف ہو۔ جو پوری طرح اپنے پیدائشی مزاج پر پرورش پائے اور پھر اپنے محفوظ انسانی اوصاف کی بنا پر خدا کے دین کی حامل بن سکے۔ بنو اسماعیل اسی تربیت یافتہ نسل سے تعلق رکھتے تھے جن میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے اور وہ تمام قیمتی انسان پیدا ہوئے جن کو اصحاب رسول کہا جاتاہے۔
اس ابراہیمی منصوبہ کے ذریعہ دراصل یہ بتایا گیا کہ عورت کا رول انسانی تاریخ میں کیا ہے۔ وہ رول انسانی نسلوں کی تربیت ہے۔ یعنی ہر ایک نسل کے بعد دوسری نسل کو تیار کرتا۔ پرانے خون(old blood)میں نےنئے خون(new blood)کا اضافہ کرنا،تا کہ انسانی نسل ایک بہتی ہوئی دریا کی مانند ہو نہ کہ کسی بند پانی کی مانند۔
جیسا کہ معلوم ہے، انسان بچے کی صورت میں پیدا ہوتا ہے اور پھر وہ بوڑھا ہو کر سو سال کے اندر مر جاتا ہے۔ یہی ہر عورت اور ہر مرد کا معاملہ ہے۔ اس تخلیقی نقشہ کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ تمام انسان اپنے ابتدائی دور میں بچے کی صورت میں اپنی ماؤں کی تحویل میں ہوتے ہیں۔ بچپن کی یہ عمر ہر آدمی کے لیےتیاری کا زمانہ(preparatory period)کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ آدمی کی ذہن سازی (conditioning) کا دور ہوتا ہے۔ اس ابتدائی دور میں عورت اور مرد جیسے بن جاتے ہیں ویسے ہی وہ آخر تک باقی رہے ہیں ۔
فطرت کے نظام میں ابتدائی عمر کا یہ مرحلہ ماں کی صورت میں عورت کو دیا گیا ہے۔ عورت ماں اور سر پرست کی صورت میں ابتدائی عمر کے تمام انسانی مجموعہ کی امین ہے۔ اس کو یہ فریضہ سونپا گیا ہے کہ و ہ ابتدائی عمر میں انسان کے اندر وہ مزاج اور وہ سیرت اور وہ اخلاق پیدا کرے جس کے نتیجہ میں ہر انسان اپنے سماج کا صالح ممبر بن سکے۔
پیغمبر ابراہیم کی زوجہ ہاجرہ نے عورت کے اسی منصوبہ بند کردار کا ایک اعلیٰ تاریخی نمونہ قائم کیا۔ ہاجرہ کی غیر معمولی قربانی نے تاریخ بشری میں پہلی بار وہ قیمتی انسان تیار کئے جو پیغمبر آخر الز ماں کے لیے ایک قابل اعتماد ٹیم بن سکے اور تاریخ انسانی میں وہ انقلاب برپا کرے جس کو مسلمہ طور پر سب سے بڑا انقلاب مانا جاتا ہے۔
حج اور عمرہ کی عالمی عبادت میں ہاجرہ کے نقش قدم پرسعی کرنے کا مستقل طریقہ اسی لیے مقررکیا گیا تا کہ بعد کی نسلوں کو یہ سبق دیا جائے کہ اسی نمونے کو آئندہ بھی مسلسل دہراتے رہنا، یہاں تک کہ قیامت آجائے۔ چنانچہ اسلام کی پوری تاریخ میں اس طریقہ پر عمل جاری رہا۔
اس عمل کی صورت تھی کہ ہر گھر کو، قرآن کے الفاظ میں، قبلہ (یونس،10:87) کی حیثیت دے دی جائے۔ اس ہدایت کے تحت یہ ہوا کہ ہر گھر ایک تعلیمی ادارہ (educational institution) اور تربیتی مرکز(training centre)بن گیا۔ اب جو بچہ پیدا ہوتا وہ اپنی ماں کی سر پرستی میں رات دن تعلیم و تربیت حاصل کرتا ۔ ہر بچہ اپنے مرحلۂ تیاری (preparatory period)میں شعوری اور غیر شعوری طور پر وہ انسان بنتا رہتا جو ایک صحت مند معاشرہ کو درکار ہوتا ہے۔
نسل انسانی کی اس تربیت کا سلسلہ تقریباً ایک ہزار سال تک جاری رہا ۔ یہی وجہ ہے کہ آغاز اسلام کے بعد ہزار سال تک سماج میں کبھی وہ بگاڑنہیں آیا جس کا مشاہدہ آج ہورہا ہے۔ اس لمبی مدت کے دوران گھر یلو تر بیت کے نتیجہ میں یہ ہوا کہ اخلاقی اقدار (moral values)سماجی روایات میں شامل ہوگئیں۔ ہر عورت اور مرد شعوری یا غیر شعوری طور پر کچھ انسانی قدروں کا پابند بنارہا۔ خاندانی اور سماجی روایات کاد با ؤاتنازیا دہ تھا کہ کوئی ان انسانی قدروں سے بغاوت کی ہمت نہ کرتا تھا۔
مگر اب یہ صورت حال بدل چکی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ جدید صنعتی انقلاب (industrial revolution) نے زندگی کا نقش مکمل طور پر بدل دیا ہے۔ اس انقلاب کے نتیجہ میں گھر کا وہ ادارہ ٹوٹ پھوٹ گیا جو انسان کی اخلاقی تشکیل کرتا تھا، جو مسلسل طور پر سماج کو تربیت یافتہ انسان فراہم کرنے کا کام کر رہا تھا۔
اسلام کے ظہور کے بعد ایک ہزار سال تک دنیا میں زرعی دور قائم رہا۔ اس زمانہ کی اقتصادیات مبنی بر زمین اقتصادیات(land-based economy)کی حیثیت رکھتی تھی ۔ اس معاشی نظام کے تحت ہر خاندان اپنی زمین سے جڑ ارہتا تھا ۔ اس بنا پر خاندانی انتشارکی و ہ صورت پیش نہیں آتی تھی جوآج عمومی طور پر دکھائی دے رہی ہے۔
صنعتی انقلاب نے معاشیات کی بنیاد کو زمین سے ہٹا کر مختلف شعبوں میں پھیلا دیا۔ اسی کے ساتھ یہ ہوا کہ روایتی تعلیم کی اہمیت ختم ہوگئی ۔ اب جدید صنعتی ضرورتوں کے تحت سائنسی تعلیم اور ٹیکنیکل تعلیم کا رواج بڑھ گیا جس نے قدیم تعلیمی تصور کو بالکل بدل دیا۔ اب معاشی ترقی کے لیے ضروری ہو گیا کہ آدمی اسکول اور کالج کی تعلیم حاصل کرے۔ وہ سرٹیفیکٹ اور ڈگری کے اعتبار سے اپنے آپ کو تعلیم یافتہ ثابت کرے۔
دور کی اس تبدیلی نے ہر گھر کی قدیم حیثیت ختم کر دی۔ پہلےیہ تھا کہ ہرگھر، عورت کے انتظام کے تحت تعلیم کا مرکز بنا ہوا تھا۔ ہر گھر نسل انسانی کی تربیت گاہ کا کام کر رہا تھا۔ مگر نئے دور نے اس روایتی تعلیم کی اہمیت گھٹا دی۔ ہر آدمی یہ چا ہنے لگا کہ اپنے بچے کو چھوٹی عمر ہی میں نرسری یا اسکول میں داخل کرے۔ اس تبدیلی نے انسانی معاشرہ کو یکسر بدل دیا۔ اب ایسے نوجوان پیدا ہونے لگے جو اخلاقی قدروں سے آزاد تھے۔ وہ صرف اپنی خواہش کو جانتے تھے نہ کسی اصول یا معیار کو۔ آج ہمارا پورا معاشرہ اسی قسم کا ایک جنگل بنا ہوا ہے۔
تاہم اس صورت حال میں مایوس ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ حالات کو سمجھ کر اس کے مطابق نئی منصوبہ بندی کی جائے ۔ قدیم ٹوٹے ہوئے نظام تربیت کونئی صورت میں قائم کر دیا جائے۔
حضرت ہاجرہ کے زمانہ میں انسانی تربیت کا جو مدرسہ بنایا گیا وہ مبنی بر صحرا (desert-based)مدرسہ تھا۔ پیغمبراسلامصلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے بعد اس مقصد کے لیے جو مدرسہ بنا وہ مبنی بر خانہ (home-based) مدرسہ تھا۔ اب ضرورت ہے کہ اس تربیتی نظام کو دوباره مبنی بر اسکول(school-based)نہج پر قائم کیا جائے ۔ تربیت انسانی کا مطلوب کام پہلے صحرا کے ماحول میں کیا گیا۔ یہ سلسلہ دو ہزارسال سے زیادہ مدت تک جاری رہا۔ اس کے بعد تربیت انسانی کا یہ کا م گھر کے ماحول میں کیا گیا جو تقریباً ایک ہزار سال تک جاری رہا۔ اب ضرورت ہے کہ اس اہم کام کو اسکول کے ماحول میں دو با رہ جاری کر دیا جائے ۔
زمانہ کی یہ تبد یلی بتاتی ہے کہ جدید دور میں جو کچھ ہوا ہے وہ صرف یہ کہ اس نے عورت کے مقام عمل(work place)کو بدل دیا ہے۔ نسل انسانی کی تربیت کے لیے عورت کی یہ فطری ذمہ داری ہے۔ اس لحاظ سے اس کے عمل کا مقام اب خصوصی طور پر اسکول بن گیا ہے۔ جدید تقاضوں نے یہ کیا ہے کہ اب انسان کی پوری نسل گھر سے نکل کر اسکول میں آ جاتی ہے۔ اس لیے اب اسکول ہی وہ مقام ہے جس کا چارج لے کر عورت اپنی فطری ذمہ داریوں کو ادا کر سکے۔
خالق کو عورت سے یہ مطلوب ہے کہ وہ نسل انسانی کی ابتدائی تربیت کرے۔ اس کے لیے عورت کو فطری طور پر ایسا بنایا گیا ہے کہ وہ اس ذمہ داری کو بخوبی طور پر ادا کر سکے۔ عورت کے اندر نرمی اور شفقت اور صبر اور جذباتی تعلق جیسی صفات دی گئی ہیں جو اس کام کے لیے بےحد ضروری ہیں۔ قدیم زمانہ میں ہی فطری اوصاف ہی کافی تھے کہ عورت اپنے مفوضہ کام کو بخوبی طور پر انجام دے سکے۔ مگر اب جد پر حالات میں صرف یہ فطری اوصاف کافی نہیں ۔
اب ضرورت ہے کہ عورت با قاعدہ طور پر ڈگری و الی تعلیم حاصل کرے۔ وہ جدید علوم سے آشنا ہو۔ اسی کے ساتھ وہ جدید معنوں میں تعلیمی تر بیت(educational training)حاصل کرے۔ وہ ڈگری کے مانے ہوئے معیار پر یہ ثابت کرے کہ وہ اسکول کے بچوں کی تعلیم و تربیت کی اہل ہے۔ وہ آج بھی اپنے اس فریضہ کو ٹھیک اسی طرح ادا کرسکتی ہے جس طرح وہ اس سے پہلے زرعی دور میں کامیابی کے ساتھ ادا کر رہی تھی۔
جدید نسلوں کو اخلاقی انارکی(moral anarchy)سے بچانے کی یہی واحد صورت ہے۔ خواتین کو جانناچاہیے کہ اب ان کا مقام عمل(work place)نہ صحرا ہے اور نہ گھر۔ بلکہ اب وہ بنیادی طور پر اسکول ہے۔ اب ان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنی تیاری ان جدید تقاضوں کے مطابق کریں ۔ وہ جد ید تعلیم حاصل کریں۔ وہ تعلیمی اعتبار سے اپنے آپ کو تربیت یافتہ ٹیچر (trained teacher) ثابت کریں ۔ اس طرح خواتین دوبارہ نئے نظام میں معمار انسانیت بن جائیں گی جس طرح اس سے پہلے وہ قدیم نظام میں معمار انسانیت بنی ہوئی تھیں ۔
24 اپریل 2004کو دہلی میں ایک ٹیلی ویژن پروگرام تھا۔ اس پروگرام میں ایک مسلم پروفیسر بھی شامل تھے۔ چائے کی میز پر گفتگو کے دوران انھوں نے بتایا کہ میری زندگی کی تعمیر میں میری ماں کا بہت بڑا حصہ ہے۔ اس سلسلہ میں انھوں نے کہا کہ 1967 میں میں نے میٹرک پاس کیا۔ میرے گھر کے معاشی حالات اچھے نہ تھے۔ میں آگے پڑھنا چاہتا تھا، مگر میرے باپ نے کہا کہ اب وہ مزید تعلیم کا خرچ نہیں اٹھا سکتے ۔ اس لیے اب مجھے تعلیم کا خیال چھوڑ کر کوئی معاشی کام کرنا چاہیے۔
مگر میں اپنے آپ کو اس کے لیے تیار نہیں پاتا تھا کہ تعلیم کا سلسلہ چھوڑ دوں ۔ مسئلہ یہ تھا کہ اگلے تعلیمی مرحلہ میں داخلے کی فیس ادا کرنے کے لیے بھی میری جیب میں پیسہ نہیں تھا۔ میری ماں نے میرے شوق کو دیکھ کر کہا کہ میرے تمام زیورات فروخت ہو چکے ہیں ۔ میرے پاس اب صرف کان کی ایک بالی موجود ہے وہ میں تم کو دیتی ہوں تم اس کو کراس سے اپنی فیس ادا کرو۔
میں نے ایسا ہی کیا۔ سونے کی اس بالی کو لے کر میں بازار میں گیا۔ وہاں مجھے اس کے 80روپے ملے۔ اس روپے سے میں نے داخلہ کی فیس ادا کی اور اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس دوران بہت سے اونچ نیچ پیش آئے۔ مگر میری ماں ہر مرحلہ میں میری ہمت بندھاتی رہیں ۔ یہاں تک کہ میں نے تعلیم مکمل کر لی اور اب میں یونیورسٹی میں پروفیسر ہوں ۔
یہ صرف ایک شخص کی کہانی نہیں ۔ جس کا میاب آدی سے بھی آپ پوچھئے وہ بتائے گا کہ میری زندگی کی تعمیر میں میری ماں کا بہت بڑا حصہ ہے۔ میری کامیابی کا کریڈٹ اگر کسی کو جاتا ہے تو وہ صرف میری ماں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ عورت، ماں کے روپ میں ہر انسان کی سب سے بڑی مددگار ہے۔ وہ ہر انسان کی ترقی میں سب سے زیاد ہ موثر رول ادا کر رہی ہے۔ ماں کی حیثیت سے عورت کا یہ کردار اتنا زیادہ عام ہے کہ ہر آدمی اپنے ذاتی تجربہ سے اس کو جانتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر ماں ہر جگہ اور ہر دور میں اپنا یہ رول ادا کرتی رہی ہے۔
اسلام اسی فطری حقیقت پر گویا ایک اضافہ ہے۔ اسلام عورت کے اندر ایک آفاقی ذہن پیدا کرتا ہے۔ اسلام کا مدعا یہ ہے کہ عورت صرف معمار فرزند نہ ر ہے بلکہ وہ معمار انسانیت بن جائے ۔ وہ فطرت کی دی ہوئی نسوانی صلاحیت اپنے بیٹے اور بیٹی تک محدود نہ ر کھے بلکہ وہ اس کو پوری نوع انسانی کے لیے خیر کا ذریہ بنادے۔ عورت کو خدا نے معمار انسانیت بنا کر پیدا کیا ہے۔ یہ عورت کا کمتر استعمال ہوگا کہ اس کو صرف معمار فرزندتک محدود کر دیا جائے۔
موجودہ زمانہ میں ڈگری والی تعلیم کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے ۔ ہر جگہ جاب کے لیے ڈگری کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ اس نئی صورت حال نے اسکول تعلیم(schooling)کی اہمیت بہت زیادہ بڑھا دی ہے۔ کیوں کہ اسکول کی تعلیم جتنی زیادہ اچھی ہوگی اتنی ہی زیادہ آگے کی تعلیم اچھی ہو سکے گی۔
اس نئی صورت حال نے عورتوں کے لیے مخصوص اسباب سے ایک بہت بڑا جاب مارکیٹ پیدا کردیا ہے۔ اور وہ ٹیچنگ کا کام ہے۔ آج عورتیں بہت بڑے پیمانہ پر ٹیچنگ کے کام میں نظر آتی ہیں۔ عام طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ عورتیں ز یا دہ کا میاب اسکول ٹیچر ثابت ہوتی ہیں ۔
اسی طرح گویا موجودہ زمانہ کی خواتین عملاً اپنے اس مقام عمل(work place)میں پہنچ چکی ہیں جو ان کے لیے فطرت نے مقدر کیا ہے۔ لیکن موجودہ حالات میں خواتین اس کا م کو زیادہ تر پروفیشن کے طور پر کرتی ہیں۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ وہ ٹیچنگ کے اس جاب کومشن کے طور پر انجام دینے لگیں۔ وہ پروفیشن ٹیچر کے بجائے مشنری ٹیچر بن جائیں اور اس کے بعد انسانی نسل کی تربیت کا وہ کام اپنے آپ ہونے لگے گا جو آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔