رابعہ بصری

رابعہ بصری ایک معروف مسلم خاتون ہیں۔ اُن کے بارے میں بہت سے عجیب و غریب واقعات کتابوں میں نقل کیے گئے ہیں۔ اُن کے بارے میں غالباً کوئی تحقیقی کتاب موجود نہیں ۔ تاہم حسب ذیل کتابوں میں ان کے حالات دیکھے جاسکتے ہیں۔

ابونعیم الاصفہانی              حلیۃ الأولياء وطبقات الاصفہاء

ابن الجوزی                   صفوة الصفوة

شہاب الدین سہروردی                 عوارف المعارف

ابن کثیر                     البدایۃ والنہایہ

خیر الدین الزر کلی             الأعلام

ابوداؤد السجستانی نے رابعہ بصری پر زندقہ کا الزام لگایا ہے۔ مگر بظاہر یہ انتہا پسندی کی بات معلوم ہوتی ہے۔ رابعہ بصری بلاشبہ ایک عابدہ اور زاہدہ خاتون تھیں ۔ وہ صوفیا کے طریقہ کے مطابق، اکثر دن کو روزہ رکھتیں اور رات کو نماز پڑھتیں ۔ اپنی زاہدانہ زندگی کی وجہ سے اُنھوں نے شادی نہیں کی۔ اگر چہ کئی لوگوں نے ان کو شادی کا پیغام دیا۔ بتایا جاتا ہے کہ ان پیغام دینے والوں میں حسن بصری بھی شامل تھے۔

رابعہ بصری کا پورا نام اس طرح تھا:رابعہ بنت اسماعیل العدویۃ، ام الخیر۔ ان کی تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات کے بارے میں اختلاف ہے۔ معروف روایت کے مطابق،وہ 718ء میں بصرہ میں پیدا ہوئیں اور 801ء میں بصرہ میں ان کا انتقال ہوا۔ ایک اور روایت کے مطابق، ان کی وفات قدس میں ہوئی ۔

رابعہ بصری کے حالات میں اکثر طلسماتی واقعات بیان کیے جاتے ہیں جو درست معلوم نہیں ہوتے ۔مختصر یہ کہ رابعہ بصری ابتدائی دور کے صوفیا میں سے سمجھی جاتی ہیں ۔ وہ دنیوی زندگی سے الگ ہوگئی تھیں اور زیادہ تر عبادت میں مشغول رہتی تھیں ۔ وہ بصرہ کے ایک غریب خاندان میں پیدا ہوئیں ۔

رابعہ بصری کے والد ین بچپن ہی میں انتقال کر گئے ۔ ان کی تین بہنوں کی بھی جلدہی وفات ہوگئی ۔ ان کی زندگی بڑی عسرت میں گزری ۔ آخر کار و ہ بصرہ میں ایک حجرہ کے اندر رہنے لگیں۔

کہا جاتا ہے کہ ایک بار ایک نامورصوفی سفیان ثوری رابعہ سے ملنے آئے اور اُنھوں نے ہاتھ اٹھا کر دنیا کی بھلائی کے لیے دعا مانگی۔ اس پر رابعہ بصری رونے لگیں۔ جب اُن سے اس کی وجہ دریافت کی گئی تو انھوں نے کہا کہ:’’حقیقی خوشی اور بھلائی تو دنیا سے کنارہ کشی سے حاصل ہوتی ہے اور آپ اسی دنیامیں بھلائی چاہتے ہیں‘‘۔

وہ جسمانی تکلیفوں کو صبر وشکر کے ساتھ برداشت کرتی تھیں ۔ کوئی تکلیف اُنہیں خدا کی یاد سے غافل نہیں کرتی تھی ۔ اُن کا کہنا تھا کہ میں خدا کی عبادت کسی جز اءیا انعام کی خاطر نہیں کرتی ہوں اور نہ دوزخ کے خوف یا جنت کی خواہش سے کرتی ہوں۔ ایک دوسرے موقع پر ایک سوال کے جواب میں کہ کیا آپ شیطان سے نفرت کرتی ہیں، رابعہ بصری نے کہا کہ نہیں، خدا کی محبت نے میرے لیے اتنی گنجائش ہی نہیں چھوڑی کہ میں شیطان سے یا کسی سے نفرت کروں ۔

رابعہ بصری شعر بھی کہتی تھیں ۔ ان کے بہت سے عربی اشعار کتابوں میں نقل کیے گئے ہیں ۔ ان کے اقوال میں صوفیانہ مزاج پایا جاتا ہے۔ ان کا ایک قول یہ ہے:اكتموا حسناتكم كما تكتمون سيئاتكم ۔ یعنی، تم اپنی نیکیوں کو چھپاؤ، جس طرح تم اپنی برائیوں کو چھپاتے ہو(الأعلام للزرکلی،جلد3،صفحہ10)۔

رابعہ بصری سے اکثر لوگ دینی اور روحانی فیض کے لیے ملتے تھے اور وہ ان کو مذ کور ہ قسم کی تعلیم دیتی رہتی تھیں۔ وہ اپنے ماحول میں لوگوں کے لیے معلم اور مربی بنی ہوئی تھیں ۔ انھوں نے بہت سے لوگوں کو اپنے قول وعمل سے متاثر کیا۔

رابعہ بصری اس زمانہ سے تعلق رکھتی ہیں جس کو تابعین کا زمانہ کہا جاتا ہے۔ یعنی ان لوگوں کا زمانہ جنھوں نے اصحاب رسول کو دیکھا تھا۔ مگر میں نے کتابوں میں ایسا کوئی واقعہ نہیں پڑھا جس میں بتایا گیا ہو کہ ان کی ملا قات فلاں صحابی سے ہوئی تھی ۔ بہر حال زمانی اعتبار سے ان کو تابعی کہا جا سکتا ہے۔

رابعہ بصری اور مشہور تا بعی حسن بصری(642-728ء)دونوں ہم عصر ہیں ۔ دونوں کے بارے میں کسی حد تک یہ کہنا صحیح ہوگا کہ وہ اپنے زمانہ میں روحِ اسلام کا احیاء چاہنے والے لوگ تھے۔ یہ واقعہ ہے کہ بعد کے دور کے مسلمانوں میں روحِ اسلام کا زوال ہوا۔ اسلام کے مظاہر تو کثرت سے موجود تھے، مگر اسلام کی روح بہت مضمحل ہو گئی تھی۔ اس وقت جولوگ روح اسلام کو زندہ کرنے کے لیے اٹھے ان میں سے ایک رابعہ بصری بھی تھیں ۔

حسن بصری کا دور علمی اعتبار سے رابعہ بصری سے بُلند ہے۔ تاہم نوعیت کے اعتبار سے دونوں ایک زمرہ میں آتے ہیں ۔ حسن بصری کے زمانہ میں عمر بن عبد العزيز خلیفہ منتخب ہوئے ۔ انھوں نے حسن بصری کو خط لکھا کہ مجھے خلافت کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ ایسے افراد بتا ئیے جو اس کام میں میری مدد کریں ۔ اس کے جواب میں حسن بصری نے انھیں لکھا:أما ابناء الدنيا فلا تريدهم، واما ابناء الآخرة فلا يريدونك، فاستعن بالله۔یعنی جو دنیا پرست ہیں ان کو آپ نہیں چاہیں گے اور جو آخرت پسند ہیں وہ آپ کو نہیں چاہیں گے۔ پس آپ اللہ سے مدد مانگیے (الأعلام للزرکلی،جلد2،صفحہ 226)۔

راقم الحروف کے نزدیک حسن بصری کا یہ جواب ایک غلو کا جواب تھا۔ عمر بن عبدالعزیز ایک خلیفۂ راشد تھے ۔ حسن بصری کو چاہیے تھا کہ وہ ان کے ساتھ تعاون کر یں ۔ یہی معاملہ رابعہ بصری کا بھی تھا۔ وقت کے کئی بڑے لوگوں نے ان کی طرف رجوع کیا۔ مگر استغناکا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ ان سے دور رہیں۔

رابعہ بصری(اور اس زمانہ کے دوسرے صوفيا)کے یہاں غلو تھا۔ ۔ مگر انھوں نے ایک کام کیا۔ انھوں نے ظاہر پسندی اور مادہ پرستی کی حوصلہ شکنی کی۔ انھوں نے اُس وقت روح اسلام کو زندہ کرنے کی کوشش کی جب کہ اس پر عمومی اضمحلال آ چکا تھا۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom