6۔ ایک خاندان کے افراد
قرآن میں ارشاد ہوا ہے:اے لوگو، اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُس سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں۔ اور اللہ سے ڈرو جس کے واسطہ سے تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور خبردار رہو قرابت والوں سے۔ بے شک اللہ تمہاری نگرانی کر رہا ہے(4:1)۔
قرآن کی اس آیت میں بتایا گیا کہ عورت اور مرد دونوں کی اصل ایک ہے۔ دونوں ایک ہی ماں باپ کی نسل ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے بھائی اور بہن کی طرح ہیں۔ یہ تصور تمام اجتماعی اخلاقیات کا سر چشمہ ہے۔ جن لوگوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جائے وہ دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اُتنا ہی ضروری سمجھیں گے جتنا کہ وہ اپنے خاندان کے افراد کے لیے اس کو ضروری سمجھتے ہیں۔ یہ تصور باہمی اتحاد کا سر چشمہ بھی ہے اور باہمی حسنِ اخلاق کا ایک طاقت ور محرک بھی۔
اس آیت میں خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا کے الفاظ آئے ہیں۔ یہاں مِنْهَا سے مرادمن جنسھا ہے۔ یعنی خدا نے جس مادہ سے آدم کو پیدا کیا، اسی مادہ سے حوا کو بھی پیدا کیا۔ اس تخلیق اشتراک کا تقاضا ہے کہ مرد اور عورت دونوں کامل اتحاد کے ساتھ رہیں۔
بائبل میں آیا ہے کہ خدا نے پہلے آدم کو پیدا کیا۔ پھر اس نے آدم کے جسم سے ایک پسلی نکال کر اس سے حوا(عورت)کو بنا یا(پیدائش، 2:22-23)۔ بائبل کے اس بیان کی بنیاد پر کچھ مفسرین نے یہ لکھا ہے کہ حوا کو آدم کی پسلی سے پیدا کیا گیا ہے،مگریہ واضح طور پر بائبل کا بیان ہے، نہ کہ قرآن کا بیان۔ قر آن کے مطابق، آدم اور حوا دونوں کو ایک ہی مشترک مادہ سے پیدا کیا گیا، نہ کہ ایک کو دوسرے کے کسی جسمانی حصہ سے۔
حدیث میں آیاہے:ہخُلِقْنَ مِنْ ضِلَعٍ(صحیحالبخاری،حدیث نمبر5186)۔یہ حدیث تمام عورتوں کے بارے میں ہے، نہ کہ حوا کی تخلیق کے بارے میں۔ اس میں در اصل پسلی کی تمثیل سے یہ بتایا گیا ہے کہ عورتیں مقابلۃً جذباتی(emotional)ہو تی ہیں۔ اس لیے مردوں کو چاہیے کہ وہ عورتوں سے معاملہ کر تے ہوئے ان کے اس مزاج کا لحاظ رکھیں۔