2۔ نکاح کا انتخاب
عورت اور مرد کے درمیان نکاح کے ضمن میں جو تعلیمات قرآن میں آئی ہیں ان میں سے ایک تعلیم یہ ہے:
اور مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک وہ ایمان نہ لائیں اور مومنکنیز بہتر ہے ایک مشرک عورت سے، اگر چہ وہ تم کو اچھی معلوم ہو۔ اور اپنی عورتوں کو مشرک مردوں کے نکاح میں نہ دو جب تک وہ ایمان نہ لائیں،مو من غلام بہتر ہے ایک آزاد مشرک سے، اگر چہ وہ تم کو اچھا معلوم ہو۔ یہ لوگ آگ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ جنتکی طرف اور اپنی بخشش کی طرف بلاتا ہے۔ وہ اپنے احکام لوگوں کے لیے کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت پکڑیں(2:221)۔
قرآن کے اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ نکاح کا رشتہ اسلام میں، عام تصور کے مطابق کوئی تفریح نہیں ہےبلکہ وہ ایک ذمہ داری ہے۔ ایک عورت اور ایک مرد نکاح کے رشتہ میں بندھ کر یہ عہدکرتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے رفیق بن کر زندگی کی ذمہ دار یوں کو نبھائیں گے۔ وہ انسانیت کے قافلہ کے صحت مند ممبر بنیں گے۔ نکاح کے اس مقصد کو سامنے رکھا جائے تو ظاہری خوش نمائی کی چیزیں اضافی بن جاتی ہیں اور زیادہ اہمیت اس بات کی ہو جاتی ہے کہ عورت اور مرد کے اندر معنوی صفات زیادہ پائی جاتی ہوں۔
مزید یہ کہ تجربہ بتاتا ہے کہ فطرت نے تقسیم میں یہ عمومی اصول رکھا ہے کہ جس مرد یا عورت کے اندر ظاہری خوشنمائی زیادہ پائی جائےاس کے اندر معنوی خوبیاں کم ہوں۔ اسی طرح جس عورت یا مرد کو معنوی صفات زیادہ دی گئی ہوں اُن کو ظاہریخوش نمائی میں کم حصہ ملا ہوا ہو تا ہے۔ ایسی حالت میں عقلمندی کا تقاضا ہے کہ وقتی قسم کی ظاہری خوشنمائی کو کم اہمیت دی جائے اور مستقل نوعیت کی معنوی صفات کو زیادہ قابلِ ترجیح سمجھا جائے۔