قوا میت کا اصول
دنیا کو بنانے والے نے اس کا نظام اس طرح بنایا ہے کہ یہاں چیزوں کو متحد اور منظمّ انداز میں چلانے کے لیے ان کا ایک مرکز (nucleus) ہو تا ہے۔ یہی مرکز اس کے مختلف اجزاء کو جوڑ کر رکھنے کا ذریعہ ہوتا ہے:
(nucleus) the central part of something around which other parts are collected or situated.
مادہ کا ابتدائی یو نٹ ایٹم ہے۔ ایٹم کے اندر منفی اور مثبت برقی ذرّات ہوتے ہیں۔ ان متحرک ذرّات کو باہم جوڑ نے کا کام ایک نیوکلیس کر تا ہے جو ایٹم کے بیچ میں موجود ہوتا ہے۔ ٹھیک ایسا ہی معاملہ شمسی نظام(solar system)کا ہے۔ اس خلائی مجموعہ میں بہت سے سیارے(planets)اور سیارچے(asteroids)ہیں۔ ان تمام اجزاء کو جوڑنے والا سورج ہے۔ سورج اس مجموعہ کے درمیان ہے جس کے گرد تمام سیارے اور سیارچے مسلسل گھوم رہے ہیں۔
یہی نظام کائنات کی تمام چیزوں میں قائم ہے۔ مثال کے طور پر شہد کی مکھیوں کو لیجیے جو پورے معنوں میں ایک زندہ سماج کا نمونہ ہیں۔ یہ مجموعہ رات دن متحرک رہتا ہے۔ اس مجموعہ کو با ضابطہ اندازمیں متحرک رکھنے کا ذریعہ چھتہ کے اندر کی وہ بڑی مکھی ہو تی ہے جس کو رانی( queen bee) کہا جاتا ہے۔شہد کی مکھیوں کے در میان اگر ان کی کو ئین موجود نہ ہو تو ان کا پورا نظام بکھر جائے گا۔
فطرت کا یہی قانون انسانی زندگی کے لیے بھی مطلوب ہے۔ اس قانون کا تعلق مرد اور مرد کےدرمیانیمعاملات سے بھی ہے اور عورت اور مرد کے درمیانیمعاملات سے بھی۔ قرآن جو خالق فطرت کی کتاب ہے، اس میں ارشاد ہوا ہے:
أَهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّكَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّا (43:32)۔ یعنی کیا یہ لوگ تمہارے رب کی رحمت کو تقسیم کر تے ہیں۔ دنیا کی زندگی میں ان کے رزق کو تو ہم نے تقسیم کیا ہے اور ہم نے ایک کو دوسرے پر فوقیتدی ہے تا کہ تمہارا بعض تمہارےبعض کو خدمت گار بنائے۔
اسی اصول تنظیم پر انسانی زندگی کا پورا نظام چل رہا ہے۔ چنانچہ مزدوروں کے اوپر ایک سپروائزر ہو تا ہے،کمپنیمیں ایک ڈائرکٹر ہو تا ہے،میٹنگمیں ایک چیر مین ہو تا ہے،آفس میں ایک باس(boss)ہو تا ہے،حکومت میں ایک صدر یا وزیر اعظم ہوتا ہے، وغیرہ۔ اسی اصول پر زندگی کے تمام اجتماعی معاملات چلتے ہیں۔ ایسا نہ ہو تو زندگی میں انارکی (anarchy) پیدا ہو جائے اور کوئی معاملہ درست طور پرنہچل سکے۔
خدا کے قانون کے مطابق،عورت اور مرد یا با لفاظ دیگر خاندانی زندگی کا ڈھانچہ تنظیم کے اسی اصول پر قائم کیا گیا ہے۔ چنانچہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے:الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ (4:34)۔ یعنی، مرد عور توں کے او پر قوّام ہیں۔
قوّ ام کے معنیٰ عربی زبان میں نگراں اورمنتظمکے ہیں۔’’مرد قوام ہیں‘‘کا مطلب یہ نہیں کہ مرد افضل ہے اور اس کے مقابلہ میں عورت غیر افضل۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ خاندانی معاملات کے انتظام یا بند و بست کے لیے خالق نے یہ فطری اصول مقرر کیا ہے کہ گھر کے داخلیمجموعہ میں مردمنتظمکی ذمہ داری کو سنبھا لے تا کہ خاندان کا نظام اسی طرح در ست طور پر چل سکے جس طرح بقیہ کائنات کا نظام اسی اصول تنظیم کو اختیار کر کے درست طور پر چل رہا ہے۔
موجودہ زمانہ میں آزادئنسواں(women's lib)کےعلمبرداروں نے صنفی برابری (gender equality) کا اصول بنا یا۔ یہ اصول سراسر غیر فطری تھا۔ چنانچہ اس اصول کو اختیار کرنے کے نتیجہ میں یہ ہوا کہ جدید سماج میں خاندانی نظام انارکی کا شکار ہو گیا۔
کسی آفس میں اگر اسی طرح مساواتِ کا رکن (workers equality)یا کسی حکومت میں اسی طرح مساوات و زراء(ministers equality)کا طریقہ رائج کیا جائے تو پورا آفس انارکی کا شکار ہو جائے گا اور حکومت کا نظام درہم برہم ہو کر رہ جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک فکری اور عملی تضاد کی بات ہے کہ دنیا کے تمام دوسرے شعبوں کے نظام کو تو قوامیت کے اصول پر چلایا جائے اور گھر کے داخلی نظام کو غیر قوامیت کے اصول پر۔ یہ تضاد یقینی طور پر غیر فطری ہے، اس لیے وہ قابل عمل بھی نہیں۔
مرد کو عورت کے اوپر قوّام بنانا اسی طرح ایک عملی بند و بست کی بات ہے جس طرح آفس میں کار کنوں کے اوپر ایک ہیڈ(head)مقرر کیا جاتا ہے اور حکومت میں و زیروں کے اوپر ایک وزیراعظم بنا یا جا تا ہے۔ قَوّام کا لفظ صرف عملی بند و بست کو بتا تا ہے، نہ کہ اخلاقی معنوں میں فضیلت یا امتیاز کو۔ قوام کے اصول کو ہمیں ایک عملی ضرورت کے طور پر لینا ہے۔ اور جہاں تک رتبہ اور درجہ کا تعلق ہے تو اس اعتبار سے عورت اور مرد کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ دونوں یکساں طور پر برابر کے عزت اور احترام کے مستحق ہیں۔