ام سلمہ بنت ابواُمیہ
ام سلمہ مکہ کے ایک معزز خاندان میں پیدا ہوئیں۔ ان کے پہلے شوہر کا نام ابو سلمہ تھا۔ دونوں نے مکی دور میں اسلام قبول کرلیا تھا۔ مکہ میں جب مخالفین کی طرف سے مصائب بڑھے تو دونوں ہجرت کر کے حبش چلے گئے۔ بعد کو دونوں نے دوبارہ ہجرت کی اور مدینہ آگئے ۔
ام سلمہ کے پہلے شوہر ابو سلمہ بدر اور احد کی جنگوں میں شریک ہوئے ۔ وہ اس جنگ میں زخمی ہوگئے ۔ اُن کا زخم پہلے علاج کے بعد اچھا ہو گیا تھا اور پھر دوبارہ لوٹ آیا۔ 4ھ میں انہوں نے وفات پائی۔
ام سلمہ کہتی ہیں کہ ایک بار میرے شوہر ابو سلمہ گھر میں آئے اور کہا کہ آج میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث سن کر آیا ہوں جو میرے نزدیک دنیا اور مافیہا سے زیادہ محبوب ہے۔ وہ یہ کہ جس شخص کو کوئی مصیبت پہنچے اور وہ انا لِلّٰه پڑھے اور اس کے بعد یہ دعا ما نگے کہ اے اللہ، میں تجھ سے اپنی اس مصیبت میں اَجرکی امید رکھتا ہوں ۔ اے اللہ، تو مجھ کو اس کا نعم البدل عطا فرما:اللَّهُمَّ عِنْدَكَ أَحْتَسِبُ مُصِيبَتِي، فَآجِرْنِي فِيهَا، وَأَبْدِلْ لِي بِهَا خَيْرًا مِنْهَا(سنن ابی داؤد، حدیث نمبر3119 )۔
احمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ ام سلمہ کو اپنے شوہر ابو سلمہ سے نہایت گہر اتعلق تھا۔ ایک بار ام سلمہ نے اپنے شوہر ابو سلمہ سے کہا:میں نے سنا ہے کہ اگر کسی عورت کا شوہر جنتی ہو اور عورت اس کے بعد دوسرا نکاح نہ کرے تو اللہ اس عورت کو بھی شوہر کے ساتھ جنت میں جگہ دیتا ہے۔ یہی صورت مرد کے لیے ہے۔ تو آؤ ہم تم معاہدہ کر لیں۔ نہ تم ہمارے بعد نکاح کرو، نہ میں تمہارے بعد نکاح کروں، ابو سلمہ نے جواب دیا۔ کیا تم میری اطاعت کروگی ۔ ام سلمہ نے کہا کہ سوائے تمہاری اطاعت کے مجھے کس بات میں خوشی ہوتی ہے۔ ابو سلمہ نے کہا:جب میں مر جاؤں تو میرے بعد تم نکاح کر لینا۔ پھر ابو سلمہ نے دعا مانگی۔ یا الله، میرے بعد ام سلمہ کو مجھ سے بہتر ساتھی عطا فرما۔ ام سلمہ فرماتی ہیں کہ جب ابو سلمہ مر گئے تو میں اپنے دل میں کہتی تھی کہ ابو سلمہ سے بہتر کون ہوگا ۔ اس کے کچھ دنوں کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میرا نکاح ہو گیا (مسند احمد، حدیث نمبر26697)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے وقت ام سلمہ کو دو چکیاں، دومشکیزے، ایک چمڑے کا تکیہ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی عنایت فرمایا ۔ یہی سامان آپ نے دوسری بیویوں کوبھی دیا تھا۔
ام سلمہ قریش کے ایک سردار کی بیٹی تھیں ۔ اسلام قبول کرنے کے بعد اُن کی پوری زندگی سادگی اور قناعت کی زندگی بن گئی ۔ ام سلمہ نے جو حدیثیں روایت کی ہیں ان کی تعداد 378 ہے۔ ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سننے کا بہت شوق تھا۔ ایک دن وہ حجرہ کے اندر اپنا بال درست کر رہی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنتے ہی آپ فوراً بال کو اسی حال میں باندھ کر کھڑی ہو گئیں اور قریب ہو کر پورا خطبہ سنا۔
ام سلمہ قرآن کی تلاوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز پر کرتی تھیں ۔ ایک مرتبہ کسی نے پوچھا۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح قرآن پڑھتے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ آپ ایک ایک آیت الگ الگ کر کے پڑھتے تھے ۔ اس کے بعد خود اسی طرح پڑھ کر بتایا ۔
ام سلمہ ایک ذہین خاتون تھیں ۔ وہ بہت جلد معاملہ کی گہرائی تک پہنچ جاتی تھیں۔ صلح حدیبیہ کا واقعہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے مشرکین کے اصرار پر مکہ جا کر عمرہ کرنے کا ارادہ ترک کر دیا اور حدیبیہ ہی سے واپس مد ینہ آ گئے ۔ آپ اور آپ کے اصحاب قربانی کے اونٹ اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ آپ نے فیصلہ کیا کہ ان جانوروں کو حدیبیہ کے مقام پر ہی ذبح کر دیا جائے۔ اس سلسلہ میں ایک واقعہ پیش آیا جس سے ام سلمہ کی غیر معمولی صلاحیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ واقعہ البخاری کی روایت کے مطابق یہ تھا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب معاہدہ حدیبیہ کی کتابت سے فارغ ہوئے تو آپ نے اپنے اصحاب سے کہا کہ اٹھو اور قربانی کے جانور کو یہیں(حدیبیہ میں)ذبح کر دو اور اپنے سر کا حلق کرالو۔ راوی کہتے ہیں کہ خدا کی قسم، ان میں سے کوئی بھی شخص نہ اُٹھا۔ یہاں تک کہ آپ نے تین بار فرمایا۔ پھر جب ان میں سے کوئی نہ اُٹھا تو آپ ام سلمہ کے پاس آئے جو اس وقت خیمے کے اندر تھیں ۔آپ نے ان سے وہ بات بتائی جو لوگوں کی طرف سے آپ کو پیش آئی تھی۔ ام سلمہ نے کہا کہ اے خدا کے رسول، اگر آپ ایسا چاہتے ہیں تو آپ جائیے اور کسی سے کوئی بات نہ کیجئے۔ یہاں تک کہ آپ اپنی قربانی کے جانور کو ذبح کر دیں اور اپنے حالق کو بلائیں اور اس سے اپنا سر مونڈا لیں ۔ چنانچہ آپ نکلے۔ آپ نے کسی سے کوئی بات نہ کی۔ یہاں تک کہ آپ نے ایسا ہی کیا۔ آپ نے اپنی قربانی کے جانور کو ذبح کر دیا اور اپنے حالق کو بلا کر اپناسرمونڈ لیا۔ پھر جب لوگوں نے اس کو دیکھا تو وہ بھی اٹھے اور انہوں نے اپنے جانور کو ذبح کیا اور ایک دوسرے کا سر مونڈنے لگے ۔لیکن ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ غم کی وجہ سے ایک دوسرے کو کاٹ ڈالیں گے(صحیح البخاری، حدیث نمبر2732)۔
اوپر کے واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت ام سلمہ عقل مند خاتون تھیں ۔ اسی کے ساتھ ان کا دینی ذوق بہت بلند تھا۔ انہوں نے اپنے آپ کو اس قابل بنایا تھا کہ وہ حقیقی معنوں میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی رفیقۂ حیات بن سکیں ۔ مذکورہ قسم کا واقعہ کسی کی زندگی میں اچانک پیش نہیں آ سکتا۔ ایسا کوئی واقعہ صرف اُس وقت ممکن ہوتا ہے جب کہ کسی عورت یا مرد نے اپنے آپ کو اسلام کے مشن میں پوری طرح شامل کرلیا ہو۔
تاریخ میں جو اعلیٰ خواتین گزر رہی ہیں اور جن کو نمونہ کی خواتین کہا جا سکتا ہے، ان میں سے چند خواتین کا مختصر تذکرہ او پر کیا گیا۔ ان میں سے ہر خاتون کی زندگی مختلف حالات میں گزری ۔ اس اعتبار سے ہر ایک کی زندگی میں مختلف قسم کے نمونے پائے جاتے ہیں ۔ ان میں سے ہر خاتون نے اپنے حالات میں سچائی پرعمل کیا۔ ان میں سے ہر خاتون کو ماڈل خاتون کہا جاسکتا ہے۔