غصہ کو بھلا نا
قرآن میں ایمان والوں کی ایک صفت یہ بتائی گئی ہے کہ جب انہیں غصہ آتا ہے تو وہ اس کو معاف کر دیتے ہیں (42:37)۔ایک روایت میں آیا ہے کہ ایک شخص پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ اس نے کہا کہ اے خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم،مجھے کوئی ایسی بات بتائیےجس کے ساتھ میں جیوں۔ اور وہ بات لمبی نہ ہو کہ میں اس کو بھول جاؤں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ تم غصہ نہ کر و: عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، أَنَّ رَجُلًا جاء إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلى الله عَلَيه وَسَلم، فَقَالَ:يَا رَسُولَ اللهِ عَلِّمْنِي كَلِمَاتٍ أَعِيشُ بِهِنَّ وَلاَ تُكْثِرْ عَلَيَّ فَأَنْسَى، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلى الله عَلَيه وَسَلم:لا تَغْضَبْ(مؤطا الامام مالک، حدیث نمبر 1627)۔
یہاں سوال کر نے والے نے گویا یہ پوچھا تھا کہ زندگی کے معاملات کو درست طورپر چلانے کے لیے جا معنصیحت(master advice)کیا ہے۔ اس کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ اس معاملہ میں ماسٹر فارمولا غصہ نہ کر نا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ کامیاب زندگی کا راز اس چیز میں ہے جس کو آرٹآفاینگرمینجمنٹ(art of anger management)کہا جا سکتا ہے۔
غصہ ایک فطری جذبہ ہے۔ ہر عورت اور مرد کو کبھی نہ کبھی کسی بات پر غصہ آ جاتا ہے۔ غصہ کے وقت عورت یا مرد کے ذہن میں ایک آگ سی بھڑک اٹھتی ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے وہ قابو سے باہر ہو جا تا ہے۔ وہ چاہنے لگتا ہے کہ جو کچھ اس کے بس میں ہے وہ سب کر ڈالے۔ تاہم یہ ایک وقتی جذبہ ہو تا ہے۔ اگر آدمی غصہ کے تناؤ کو ڈیفیوز کر نے کی کو شش کرے تو صرف ایک دو منٹ میں اس کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا اور وہ نارمل آدمی کی طرح بن جائے گا۔
غصہ کا جواب غصہ سے دینا گویا منفی بات کا منفی انداز میں جواب دینا ہے۔ یہ صحیح انسانی طریقہ نہیں۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ کسی کی طرف سے منفی بات آئے تب بھی اس کا جواب مثبت انداز میں دیا جائے۔
منفی بات کا مثبت انداز میں جواب دینا کسی اور کے لیے نہیں ہوتا بلکہ وہ خود اپنے لیے ہو تا ہے۔ جب آپ غصہ ہو جائیں یا منفی احساس آپ کے اندر بھڑک اٹھے تو اس وقت آپ شدید ذہنی انتشار میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ آپ کا ذہنی عمل رک جاتا ہے۔ یہ آپ کا خود اپنا مسئلہ ہے۔ ایسی حالت میں غصہ کے جواب میں غصہ نہ کرنا یا اشتعالانگیزی کے باوجود مشتعل نہ ہونا ایک ایسی روش ہے جس کا فائدہ سب سے پہلے خود آپ کو ملتا ہے۔ ایسی روش خود اپنے آپ کو بچانے کے ہم معنیٰ ہے۔ کیوں کہ آپ کو اس کا نتیجہ اس طرح ملتا ہے کہ آپ کے اندر ذہنیارتقاء کے عمل میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوتی۔ آپ کا روحانی سفر رکے بغیر برابر جاری رہتا ہے۔