10۔ قابل اعتماد ساتھی
ابو امامہ رضی اللہ عنہرسولاللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہا کرتے تھے کہ اللہ کے تقویٰ کے بعد سب سے بہتر چیز جو ایک مومن پاتا ہے وہ نیک بیوی ہے۔ اگر وہ اس کو کوئی حکم دے تو وہ اس کی اطاعت کرے۔ اور اگر وہ اس کی طرف دیکھے تو وہ اس کو خوش کر دے اور اگر وہ اس پر قسم کھا لے تو وہ اس کو پورا کرے اور اگر وہ اس سے غائب ہو تو وہ اپنے نفس اور اُس کے مال میں اس کی خیر خواہی کرے:عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ:مَا اسْتَفَادَ الْمُؤْمِنُ بَعْدَ تَقْوَى اللهِ خَيْرًا لَهُ مِنْ زَوْجَةٍ صَالِحَةٍ، إِنْ أَمَرَهَا أَطَاعَتْهُ، وَإِنْ نَظَرَ إِلَيْهَا سَرَّتْهُ، وَإِنْ أَقْسَمَ عَلَيْهَا أَبَرَّتْهُ، وَإِنْ غَابَ عَنْهَا نَصَحَتْهُ فِي نَفْسِهَا وَمَالِهِ(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 1857)۔
یہ بات اپنے وسیع تر مفہوم میں عورت اور مرد دونوں کے او پر منطبق ہوتی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے بہترین جوڑا اُسی وقت بن سکتے ہیں جب کہ دونوں اپنے اندر مذکورہ صفات پیدا کر لیں۔
مرد اور عورت دونوں ایک دوسرے کے لیے تکملہ(complement)کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ ہر ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اپنے وجود کو مکمل کرتا ہے۔ عورت کے بغیر مرد کی زندگی نا مکمل ہے اور اسی طرح مرد کے بغیر عورت کی زندگی نا مکمل ہے۔
عورت اور مرد دونوں اپنی زندگی کا یہ فریضہ صرف اس طرح ادا نہیں کر سکتے کہ وہ نکاح کر کے ایک دوسرے کے ساتھ ازدواجی رشتہ میں منسلک ہو جائیں۔ اسی کے ساتھ اُنہیں ایک اور کام کرنا ہے۔ مذکورہ اعتبار سے وہ اپنے شعور کو بیدار کریں۔ اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے دونوں اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار کریں۔ دونوں کے لیے اُن کا گھر ایسا مدرسہ بن جائے جس میں شوہر اور بیوی دونوں ایک دوسرے کے ٹیچر بھی ہوں اور اسی کے ساتھ ایک دوسرے کے اسٹوڈنٹبھی۔ اس دوسرے پہلو سے دونوں کے درمیان رشتہ کی مضبوطی ان کی ازدواجی زندگی کی کامیابی کی ضمانت ہے۔
حدیث کےیہ الفاظ بے حد اہم ہیں کہ وہ اس کے مال میں خیر خواہی کرے۔ اس کو دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ بہترین عورت وہ ہے جو گھر کی آمدنی کو صحیح طور پر خرچ کرے۔ وہ انتظام مال(money management)میں پوری طرح اپنے شوہر کی مددگار ہو۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ مال دنیا کی زندگی میں انسان کے لیے قیام کا ذریعہ ہے (4:5)۔ مال کا بہترین استعمال یہ ہے کہ اس کوحقیقیضرورت کی مد میں خرچ کیا جائے۔مال کے معاملہ میں فضول خرچی کر نا اتنا برا کام ہے کہ جو مرد اور عورت ایسا کریں ان کو قرآن میں شیطان کا بھائی اور بہن بتا یا گیاہے(الاسراء،17:27)۔
مال کے معاملہ میں فضول خرچی کا تعلق عورتوں سے بہت زیادہ ہے۔ قرآن کے مطابق، عورتیں اپنے مزاج کے اعتبار سے تزئین اور نمائش جیسی چیزوں کو بہت زیادہ پسند کرتی ہیں (43:18)۔ اس بنا پر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ گھروں میں تقریبات اور فرنیچر اور کپڑے اور دوسری مدوں میں مال کا جو غیر ضروری خرچ ہوتا ہے وہ زیادہ تر عورتوں کے نمائشیذوق کی وجہ سے ہو تا ہے۔ مال کا صحیحخرچ اور اس کا غلط خرچ دونوں کا انحصار زیادہ تر عورت کے اوپر ہے۔
اس بات کو مثبت انداز میں اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ کسی گھر کی کامیابی کا راز سادگیکلچر میں ہے، اور سادگیکلچر کا معاملہ تمام تر عورت کے او پر منحصر ہوتا ہے۔ سادگی بظاہر ایک معمولی چیز ہے مگر عملی اعتبار سے دیکھیے تو وہ زندگی کی اہم ترین قدر کی حیثیت رکھتی ہے۔ جہاں سادگی ہو گی وہاں ہر دوسری چیز اپنے آپ موجود ہوں گی۔ کسی نے بہتر زندگی کا فارمولا درست طور پر ان الفاظ میں پیش کیا ہے— سادہ زندگی اور اونچی سوچ:
simple living, high thinking
سادگی اور اونچی سوچ دونوں ایک دوسرے سے لازمی طور پر جڑے ہوئے ہیں۔ جہاں سادگی ہو گی وہاں اونچی سوچ ہو گی۔ اور جہاں اونچی سوچ ہو گی وہاں سادگی بھی ضرور پائی جائے گی۔ سادگی کا مطلب ہے حقیقیضرورت اور غیرحقیقیضرورت میں فرق کرنا۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ غیرحقیقیضرورت کو اپنی ضرورت سمجھ لینا اور اسی کے لیے مال خرچ کرنا ایک ایسی بری عادت ہے جو آدمی کے اندر ذہنیارتقاء(intellectual development)کے عمل کو روک دیتی ہے۔ اس کے برعکس، غیرحقیقیضرورت کو نظر انداز کر نا اور صرف حقیقیضرورت پر اپنا مال خرچ کرنا آدمی کو یہ موقع دیتا ہے کہ وہ ذہنی ترقی کے عمل میں مصروف ہو۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ فضول خرچی اور اعلیٰ انسانیت دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے۔ اعلیٰ انسانیت کے لیے سادہ زندگی ضروری ہے۔
کسی گھر کو سادگی کے اصول پر چلا نا صرف عورت کا کام ہے۔ عورت اگر صرف یہی ایک کام کرے کہ مال کے حسن انتظام کے ذریعہ وہ گھر کے اندر سادگیکلچر کو رائج کر دے تو یہ اتنا بڑا کام ہو گا کہ اسی ایک کار نامہ کی بنا پر اس کو معمارانسانیت کا لقب دیا جا سکتا ہے۔
سادگی جس طرح بااصول زندگی کی علامت ہے،اسی طرح انتظامِمال(money management)منصوبہ بند زندگی کی علامت۔ جو لوگ ایسا کریں وہ گو یا زندگی میں ترجیحات (priorities)کو جانتے ہیں۔ انہوں نے بے مقصد زندگی کا طریقہ چھوڑ کر بامقصد زندگی کے طریقہ کو اختیار کیا۔ انہوں نے حیوانی سطح کی زندگی سے اوپر اٹھ کر انسانی سطح کی زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو دنیا میں بھی خدا کا انعام ملتا ہے اور آخرت میں بھی وہ خدا کے انعام کے مستحق قرار پائیں گے۔ قرآن کے الفاظ میں وہ حسناتدنیا کے بھی حصہ دار ہیں اور حسناتآخرت کے بھی حصہ دار۔