زوجین کا اصول
اللہ تعالیٰ نے موجودہ دنیا کو جوڑے(pairs)کی صورت میں بنا یا ہے۔ یعنی ہر چیز کا ایک بالمقابل جوڑا۔ ہر چیز اپنے جوڑے سے مل کر اپنے فطریمنشاء کی تکمیلکر تی ہے۔ اس اصول کو قرآن میں ان الفاظ میں بتایا گیا ہے:
وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (51:49)۔ یعنی، اور ہم نے ہر چیز کو جوڑا جوڑا بنایا ہے تاکہ تم دھیان کرو ۔
دنیا کی تمام چیزیں جوڑے جوڑے کی شکل میں پیدا کی گئی ہیں۔مادہ میں مثبت اور منفی ذرّے، نباتات میں نَراور مادہ، حیوانات میں مذکر اور مؤنث،انسان میں عورت اور مرد۔ زوجین کا یہی اصول پوری کائنات میں ہے اور یہی اصول انسانوں کے اندر بھی عورت اور مرد کی صورت میں قائم کیاگیا ہے۔
زوجین کے اس فطری اصول کا یہ نتیجہ ہے کہ عورت اور مرد دونوں ایک دوسرے سے مل کر اپنا وہ فریضہ ادا کرتے ہیں جو فطرت کے نظام کے تحت ان سے مطلوب ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیےتکملہ(complement)کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مِل کر مکمل وجود بنتے ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے بغیر نا مکمل وجود بن جاتے ہیں۔
جدید تہذیب نے عورت اور مرد کے درمیان صنفیمساوات (gender equality) کا تصورپیش کیا ہے۔ یعنی عورت اور مرد دونوں بالکلیکساں طور پر ایک دوسرے کی مانند ہیں۔ جو عورت ہے وہی مرد ہے،اور جو مرد ہے وہی عورت ہے۔ دونوں کے درمیان صنفی اعتبار سے کسی قسم کا کوئی فرق موجود نہیں۔ یہ صنفی مساوات بظاہر ایک خوبصورت تصور معلوم ہوتا ہے۔ مگر وہ واضح طور پر فطرت کے نقشہ کے خلاف ہے۔ اور جو چیز فطرت کے نقشہ کے خلاف ہو وہ سرے سے قابلِعمل ہی نہیں۔
جیسا کہ اوپر کے قرآنی حوالہ سے معلوم ہوتا ہے، خالق نے اس دنیا کی ہر چیز کو جوڑے جوڑے(pairs)کی صورت میں پیدا کیا ہے۔ جو ڑوں کی یہ تقسیم دونوں کے درمیان مساواتی تقسیم کو نہیں بتاتی بلکہ یہ تکمیلیتقسیم کو بتاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ عورت اور مرد کا با ہمی معاملہ صنفی برابری(gender equality)کا نہیں ہے۔ بلکہ زیادہ صحیح طور پر یہ معاملہ صنفیتکملہ (gender complementarity)کاہے۔ یعنی عورت اور مرد دونوں ایک کامل وجود کا نصف ہیں۔وہ ایک واحد انسانی شخصیت ہیں جس کا نصف حصہ عورت ہے اور اس کابقیہنصف حصہ مرد ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ عورت اور مرد کے جوڑے کا معاملہ بھی وہی ہے جو دوسری چیزوں كے جوڑے کا ہے۔مثلاً مادّی چیزوں کے ابتدائی یونٹ کو ایٹم کہا جاتا ہے۔ ہر ایٹم میں بیک وقت دومختلف پار ٹیکل ہو تے ہیں، ایک منفیپارٹیکل(negative particle)اور دوسرامثبت پارٹیکل(positive particle) ۔ یہ دونوں زوجین کی حیثیت سے ہر مادی چیز کا حصہ ہیں۔
مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان دونوں اجزاءکےدرمیانمذکورہقسمکیمساویانہبرابری (equality)ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ جو منفیپارٹیکلہےوہیمثبتپارٹیکل بھی ہے۔ اور جو مثبت پارٹیکل ہے وہی منفی پارٹیکل بھی ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی کمی کی تکمیل کرتے ہیں، جو ایک میں نہیں ہے وہ دو سر ے میں ہے، اور جو دوسرے میں نہیں ہے وہ پہلےمیں ہے۔
یہی معاملہ عورت اور مرد کا بھی ہے۔ عورت اور مرد دونوں ایک دوسرے کے لیے مساویانہ فریق کی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ دونوں ایک دوسرے کے لیےتکمیلیپارٹنر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دونوں کو مل کر مشترک عمل کے ذریعہ اپنا فریضۂحیات ادا کر نا ہے۔ عورت کے بغیر مرد ادھورا ہے، اور اسی طرح مرد کے بغیر عورت ادھوری ہے۔
جدید تہذیب کے تصور مساوات کےمطا بق، جو انسانی سماج بنا یا جائے وہ یقینا ًایک مصنوعی سماج ہو گا۔نظامِ فطرت سے عدمِ مطابقت(incompatibility)کی بنا پر وہ کبھی کامیاب انسانی سماج نہ بن سکے گا۔ چوں کہ فطرت کے نظام کو بدلنا ممکن نہیں ہے اس لیے اس معاملہ میں کوئی بھی تدبیر فطرت سے انحراف کی غلطی کی تلافی نہیں بن سکتی۔
جیسا کہ معلوم ہے، پوری مادی دنیا منفیپارٹیکل اور مثبتپارٹیکل کے باہم ملنے سے بنی ہے۔ یہ اتحاد پوری مادی دنیا کو مکمل طور پر ہم آہنگکیے ہوئے ہے۔ اگر ایسا ہو کہ یہ دونوں پارٹیکلاپنی خاصیتکے اعتبار سے یکساں ہو جائیں یعنی جو وصف (property) منفیپارٹیکل میں ہے عین وہی وصفمثبتپارٹیکل میں بھی ہو جائے۔ اور جو وصف مثبت پارٹیکل میں ہے وہی و صف منفی پارٹیکل میں بھی ہو جائے تو پوری مادی کائنات اچانک منتشر (disintegrate)ہو جائے گی۔
یہی معاملہ عورت اور مرد کا ہے۔ عورت اور مرد کا اجتماعاگرباہمی تکمیلکے نظریہ کے تحت ہو، جیسا کہ قرآن میں بتایا گیا ہے،تو انسانی سماج ایک متحد اور ہم آہنگسماج بنے گا۔ وہ باہمی تضادات سے خالی ہو گا۔ اس کے برعکس، اگر عورت اور مرد کا اجتماع، تہذیب جدید کے اصول کے مطابق، دونوں صنفوں کی یکساں برابری کے اُصول پر قائم کیا جائے تو پورا انسانی سماج انتشار کا شکار ہو جائے گا۔ سماج میں ہر طرف ٹوٹے ہوئے خاندان(broken homes)کا منظر دکھائی دینے لگے گا، جیسا کہ آج مغربی سماج میں دکھائی دیتا ہے۔
قرآن میں ارشاد ہوا ہے:
اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہاری جنس سے تمہارے لیے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم اُن سے سکون حاصل کرو۔ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت رکھ دی۔ بے شک اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور کرتے ہیں:وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (30:21)۔
قرآن کی اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ انسان کے ساتھ خدا کی یہ ایک خاص رحمت ہے کہ اُس نے اُس کے لیے اُسی کے جیسا ایک زوج(جوڑا)بنا یا۔ مزید یہ کہ یہ جوڑامنفیذرہ اورمثبتذرہ کی طرح صرف ایک ما دی جوڑا نہیں ہے۔ بلکہ انسان کے اندر اس جوڑے کے لیے مودت اور رحمترکھ دیگئی ہے تا کہ وہ اُس سے سکون حاصل کر سکے۔
یہ بات مرد اور عورت دونوں کے لیے ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے زوج ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے سکون اور محبت کا ذریعہ ہیں۔ موجودہ دنیا ہنگاموں سے بھری ہوئی دنیا ہے۔یہاں ہر وقت مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسی حالت میں عورت اور مرد دونوں کے لیے ایک ذریعۂ سکون درکار ہے۔ خالق کا یہ ایک حکیمانہ انتظام ہے کہ اُس نے عورت اور مرد دونوں کو ایک دوسرے کے لیے سرچشمۂ مودت بنا دیا۔ اس طرح دونوں کے لیے یہ ممکن ہو گیا کہ وہ زندگی کی جد و جہد میں مشغول ہو تے ہوئے ایک دوسرے سے سکون حاصل کرسکیں۔
زندگی کی جد و جہد ہر انسان کے لیے ایک شدیدمعرکہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس معرکہ کے دوران بار بار ایسا ہوتا ہے کہ انسان ذہنی دباؤ(stress) کا شکار ہو جاتا ہے۔ ایسی حالت میں ہر مرد اورہر عورت کے لیے ایک ایسی مدد گار چیز درکار ہے جو اُس کے لیے ڈیاسٹریسنگ (de-stressing)کاکام کرے۔ جو اُس کے ذہنی دباؤ کو رفع کر کے دوبارہ اُسے معتدل ذہنی حالت پر لے آئے۔ عورت اور مرد دونوں ایک دوسرے کے لیے اسی ڈیاسٹر یسنگکاذریعہ ہیں۔ اس طرح دونوں ایک دوسرے سے برابر طاقت حاصل کر تے رہتے ہیں۔
زوجین کا رشتہ اگر صحیح طور پر قائم ہو اور دونوں ایک دوسرے کی اہمیت اور ضرورت کو سمجھیں توشادی شدہ زندگی اختیار کر نے کے بعد ہر گھر ایک ادارہ(institution)بن جائے۔ یہ ادارہ عورت اورمردد و نوں کے لیے ایک ایسا مرکز حیات ہو گا جو دونوں فریق کے لیے سب سے بڑی طاقت ہو۔ جودونوں فریق کو اس قابل بنائے کہ وہ زندگی کے سفر میں کبھی اپنے کو تنہا نہ سمجھیں۔ وہ نا موافق حالات میں بھی زندگی کا سفر کامیابی کے ساتھ جاری رکھیں،یہاں تک کہ وہ اپنی منزل پر پہنچ جائیں۔
قرآنی تصور کے مطابق،سماجی زندگی میں عورت اور مرد کے درمیان تقسیم کا رکااُصول رکھا گیاہے۔ اس بنا پر دونوں صنفوں کامیدانِ کار(work place)بنیا دی طور پر الگ الگ رہتا ہے۔ گویا کہ دونوں ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں جو ایک دوسرے سے الگ الگ بھی ہیں اور اپنی مشترککارکردگی کے اعتبار سے دونوں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے بھی ہیں۔
جدید تہذیبی تصور میں یہ نقشہبالکل مختلفہو جاتا ہے۔ اس نقشہمیں تقسیمِکار کے بجائے توحیدکار کے اصول کو اختیار کیا جاتا ہے۔ مغربی دنیا میں اگر چہ آج بھی عملاًزیادہ تر تقسیم کار کا اصول ہی رائج ہے۔ مگر نظری اعتبار سے جو ہو نا چاہیے وہ یہی ہے کہ دونوں صنفوں میں مکمل طور پر توحید کار کا اُصول اختیار کیا گیا ہو۔ اگر چہ غیر فطری اصول ہونے کی بنا پر اس قسم کی مفروضہتوحیدکار نہ تو ممکن ہے اور نہ بالفعل وہ کہیں پائی جاتی ہے۔
اسلام میں عورت اور مرد کے درمیان جسصنفیفرق کو تسلیم کیا گیا ہے وہ صرف عملی ضرورت کی بنا پر ہے۔ اس کے علاوہ جہاں تک عزت اور حقوق کی بات ہے،دونوں صنفوں کے درمیان مکمل برابری ہے۔ عزت اور احترام کے اعتبار سے دونوں کے درمیان کسی بھی قسم کا فرق و امتیاز جائز نہیں۔
جیسا کہ عرض کیا گیا،دنیا کی ہر چیز میں زوجین(pair)کا اصول رکھا گیا ہے۔ یہی اصول عورت اور مرد کی صورت میں انسان کے درمیان بھی موجود ہے۔ تاہم زوجین کا یہ معاملہ دونوں صنفوں کے درمیان صرف فرق(difference)کو بتا تا ہے، نہ کہ دونوں کے درمیان امتیاز(distinction)کو۔ یہ فرق اس لیے ہے تاکہ دونوں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہوئے زندگی کے عمل کو بہتر طور پرانجام دیں۔ تا ہم یہ ایک عالمی اصول ہے کہ کوئی کلیہ استثناء سے خالی نہیں۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ ہر عموم میں ایک استثناء ہو تا ہے:
Every rule has some exceptions
یہ استثنائیاصول عورت اور مرد دونوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ بعض عورتیں آپ کو ایسی دکھائی دیں گی جو بظاہر عورت ہونے کے باوجود مردوں جیسی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اسی طرح بعض ایسے مرد آپ کو نظر آئیں گے جو بظاہر مرد ہوتے ہوئے عورت والی صفت کے حامل ہوں گے۔ اس قسم کا استثناءمردوں میں بھی پایا جاتا ہے اور عورتوں میں بھی۔مگراس استثناء کی بنیاد پر کوئی قاعدہ نہیں بنایا جا سکتا۔ یہ ایک تسلیم شدہ اصول ہے کہ قانون ہمیشہ عمومی صورت حال کو دیکھ کر بنا یا جا تا ہے۔ استثنائی مثالیں عمومی قانونسازی کی بنیاد نہیں بن سکتیں۔
دنیا میں انسان کو سوچنے اور کرنے کی آزادی دی گئی ہے، اس لیے یہ پوری طرح انسان کے امکان میں ہے کہ وہ جو چاہے سوچے اور جو چاہے کرے۔ مگر یہ آزادی صرف ذاتی عمل کی حد تک ہے۔ جہاں تک نتیجہ کا معاملہ ہے، اس معاملہ میں انسان کو کوئی آزادی نہیں۔نتیجہبہر حال و ہی نکلے گا جو فطرت کے قانون کے مطابق نکلناچاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زوجین کے فطری اصول کو توڑ نے کی آزادی بلا شبہ ہر عورت اور مرد کو ہے۔ مگر نتیجہ وہی نکلے گا جو کہ نکلنا چاہیے، نہ کہ وہ جس کی بطور خود امید رکھی گئی ہو۔