عورت کی سب سے بڑی کمزوری
عورت کی سب سے بڑی کمزوری اس کی اولاد ہے۔ کہانیوں میں عورت کو محبت کی علامت بتایا گیا ہے۔ مگر یہ صرف محدود معنوں میں ہے۔ عملی طور پر دیکھیے تو عورت محبتِ اولاد کی علامت ہے، نہ کہ محبت انسان کی علامت۔ عورت کے دل میں خدا نے محبت کا گہرا جذبہ پیدا کیا ہے۔ ضرورت تھی کہ محبت کا یہ جذبہ پوری انسانیت تک پھیل جائے۔ مگر عملاً عورت نے اس کو اپنی اولاد کی محبت تک محدود کر دیا۔
عورت کی اس کمزوری کو ایک حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ حدیث عام طور پر حدیث جبریل کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے مطابق، فرشتہجبریل، پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس انسان کی صورت میں آئے۔ اُن کی اس آمد کا مقصد تعلیمِدین تھا۔ اس کا طریقہاُنھوں نے یہ اختیار کیا کہ وہ سوالات کر تے رہے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے دیے ہوئے علم کے مطابق، ان کاجو اب دیتے رہے۔
ایک سوال میں فرشتہ نے پوچھا کہ قیامت کی علامتیں کیا کیا ہیں۔ اس کے جواب میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جو علامتیں بتائیں اُن میں سے ایک علامت یہ تھی کہ جب عورت اپنا آقا جنے:إِذَا وَلَدَتِ الأَمَةُ رَبَّهَا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 50)۔
’’عورت اپنا آقا جنے گی‘‘کا مطلب یہ ہے کہ عورت خود اپنے پیدا کیے ہوئے بیٹے کی محبت میں اتنا زیادہ مغلوب ہو جائے گی اور اس طرح اس کی بات ماننے لگے گی گویا کہ وہ اس کا حاکم ہے اور وہ خود اس کی محکوم۔ عورت کے اندر یہ کمزوری ہمیشہ سے رہی ہے۔ مگر قیامت کے قریب اُس کا یہ مزاج بہت زیادہ بڑھ جائے گا۔ قیامت کی قربت سے مراد غالباًوہ زمانہ ہے جو صنعتی انقلاب کے بعد آیا ہے۔ صنعتی انقلاب کے بعد بعض ایسے حالات پیدا ہوئے ہیں جن میں اولاد کی حیثیت بہت بڑھ گئی ہے اورماںاورباپ ہمیشہ سے زیادہ اپنی اولاد کی محبت میں گرفتار ہوگئے ہیں۔ وہ اپنا سارا اثاثہصرف اپنی اولاد کے او پر خرچ کر دینا چاہتے ہیں۔
اس صورت حال نے، خاص طور پر موجودہ زمانہ میں،عورت سے اس کا سب سے بڑا امتیاز چھین لیا ہے۔ عورت اپنی مختلف صلاحیتوں کی بنا پر اس قابل ہے کہ وہ وسیع تر انسانیت کے لیے ایک عظیم خدمت انجام دے سکے۔ وہ پوری انسانیت کے لیے معلّم اور معمار بن جائے۔ مگر اولاد کی بڑھی ہوئی محبت،صحیح تر الفاظ میں، بے جا محبت نے اُس کو اس معاملہ میں آفاقی رول ادا کر نے کے قابل نہیں رکھا۔ عملاً یہ ہوا کہ اس کی زندگی اپنے بیٹے کے لاڈ پیار سے شروع ہوتی ہے اور آخر کار اسی پر ختم ہو جاتی ہے۔ چنانچہ عورت اس سے قاصر رہ گئی کہ وہ آفاقی معنوں میں انسانیت کی کوئی اعلیٰ تعمیر کرسکے۔ جس عورت کو محبت کی علامت بتایا گیا تھا وہ صرف محبتِ فرزند کی علامت بن گئی، نہ کہ عمومی معنوں میں انسان کی علامت۔