شخصیت کی تعمیر
عائشہ صدیقہ اسلام کی تاریخ میں ایک استثنائی شخصیت کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ شخصیت کیسے بنی اس کی تفصیلات حدیث اور سیرت کی کتابوں میں موجود ہیں۔ عائشہ صدیقہ قرآن کا مسلسل مطالعہ کرتی رہتی تھیں۔ اُن کی زندگی کا کوئی اور مقصد نہ تھا۔ مزید یہ کہ اُن کے لیے حصولِعلم کا سب سے بڑا ذریعہ براہِ راست پیغمبر اسلام سے استفادہ تھا۔ اس استفادہ کا سلسلہ مختلف صورتوں میں برابر جاری رہتا تھا،دن کے اوقات کے علاوہ رات کے لمحات میں بھی۔
اس معاملہ کی ایک مثال اس روایت میں ملتی ہے جس میں عائشہ صدیقہ خود بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فجر سے پہلے کی دو رکھت نماز پڑھتے۔ اُس وقت اگر میں بیدار ہو تی تو وہ مجھ سے بات کرتے ور نہ آپ لیٹ جا تے: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ، فَإِنْ كُنْتُ مُسْتَيْقِظَةً حَدَّثَنِي، وَإِلَّا اضْطَجَعَ (صحیح مسلم، حدیث نمبر743)۔
اس روایت میں عائشہ صدیقہ نے حدثنی کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے حدیث بیان کر تے تھے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے گفتگو کرتے تھے۔ یہ گفتگو یقینی طور پر دینی اور علمی موضوعات پر ہو تی تھی، عائشہ صدیقہ خود بھی اس کی ایک حصہ دار ہو تی تھیں۔ گویا یہ ایک قسم کا فکریتبادلہ(intellectual exchange)ہوتا تھا۔ اس طرح یہ ممکن ہوا کہ عائشہ صدیقہ کے اندر ذہنی ارتقاء کا عمل(process)مسلسل طور پر جاری رہے۔ یہاں تک کہ ان کے اندر وہ اعلیٰ صفت پیدا ہو جائے جس کے تحت وہ اسلام کی تاریخ میں اُس رول کو ادا کر سکیں جو انہوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد نصف صدی تک ادا کیا۔ رات کی تنہائی کے اس قیمتی وقت کو پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح استعمال فرماتے کہ آپ عائشہ صدیقہ کی فکری اور روحانی تربیت کرتے۔ یعنی وہی چیز جس کو قرآن میں تزکیہ اور تعلیم حکمت بتا یا گیا ہے۔
اس معاملہ کی مزید وضاحت کے لیے یہاں حدیث اور سیرت کی کتابوں سے کچھ مزید حوالے نقل کیے جاتے ہیں۔ ان سے اندازہ ہو گا کہ زمانۂ نبوت میں عائشہ صدیقہ کی شخصیت کس طرح تعمیر ہوئی۔
عائشہ صدیقہ کا تبادلۂ خیال پیغمبر اسلام سے کس طرح ہوتا تھا، اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک بار پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:مَنْ حُوسِبَ عُذِّبَ (جس کا حساب لیا گیا وہ عذاب میں مبتلا ہوا)۔ عائشہ صدیقہ نے اس سلسلہ میں سوال کیا کہ اے خدا کے رسول، خدا نے قرآن میں اس کے بجائے یہ فرمایا ہے کہ: فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا (84:8)۔ یعنی آپ مطلق طور پر فرما رہے ہیں کہ حساب کے بعد آدمی بچ نہیں سکتا۔ حالاں کہ قرآن کے بیان کے مطابق، حساب کے بعد بھی آدمی عذاب سے بچ سکتا ہے۔ پیغمبر اسلام نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ اعمال میں پیشی کی بات ہے۔ لیکن جس کے اعمال میں جرح و قدح شروع ہوئی تو وہ ہلاک ہوا(صحیح البخاری، حدیث نمبر103)۔ اس مثال سے اندازہ ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام سے استفادہ میں عائشہ کی حیثیت محض سامع کی نہیں ہوتی تھی بلکہ یہ وہی چیز تھی جس کو تبادلۂ خیال کہا جا سکتا ہے۔
اس طرح عائشہ صدیقہ نے ایک موقع پر پیغمبر اسلام سے یہ سوال کیا کہ مشرکین نے اگر کوئی نیک کام کیا ہے تو اس کی جزا اُن کو ملے گی یا نہیں۔ اس سلسلہ میں عائشہ صدیقہ نے عبد اللہ بن جدعان کی مثال دی۔ وہ مشرک تھا اور شرک کی حالت ہی میں اُس کا انتقال ہوا۔ مگر وہ ایک اعلیٰ اخلاق کا آدمی تھا۔ وہ لوگوں کی مدد کیا کرتا تھا۔ عائشہ صدیقہ نے سوال کیا کہ کیا عبد اللہ بن جدعان کا یہ اخلاقیعملاُس کو آخرت میں فائدہ دے گا۔ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ نہیں۔ کیوں کہ اُس نے کبھی یہ نہیں کہا کہ:رَبِّ اغْفِرْ لِي خَطِيئَتِي يَوْمَ الدِّينِ (صحیح مسلم، حدیث نمبر214)۔ یعنی، اے میرے رب، جزا کے دن تو میرے گنا ہوں کو معاف فر ما۔
اس سلسلہ کا ایک واقعہ یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار یہ فیصلہ فرمایا کہ وہ ایک ماہ تک اپنی ازواج سے الگ رہیں گے۔ اس کو تاریخ میں ایلاء کا واقعہ کہا جاتا ہے۔ یہ اعلان کر کے آپ ایک قریبی مکان کی چھت پر چلے گئے۔ ایلاء کا یہ معاملہ ہجری مہینہ کی یکم تاریخ کو شروع ہوا۔ 29دن پورا ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم چھت سے اُترے۔ جب آپ عائشہ صدیقہ کے حجرہ میں آئے تو اُنہوں نے کہا کہ اے خدا کے رسول،آپ نے تو ایک مہینہ تک الگ رہنے کو کہا تھا اور ابھی مہینہ کے تیس دن پورا ہونے میں ایک روز باقی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ مہینہ 29دن کا بھی ہوتا ہے اور جبرئیل نے مجھے یہ خبر دی ہے کہ آج چاند ہو گیا(صحیح البخاری،حدیث نمبر378 )۔
عائشہ صدیقہ کے مذکورہ سوال و جواب سے ایک مزید دینی مسئلہ معلوم ہوتا ہے جس کا تعلق رویتِ ہلال سے ہے۔ اس سے یہ مسئلہ مستنبط ہوتا ہے کہ نئے چاند کے معاملہ میں اگر عینی مشاہدہ نہ ہوا ہو، تاہم قابلِ اعتماد خبرسے 29تاریخ کو معلوم ہو جائے کہ چاند ہو گیا ہے تو اُس کو تسلیم کر لیا جائے گا اور اُس کی بنیاد پر عبادت کا نظام قائم کیا جائے گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت میں بالواسطہرویت کی اہمیت بھی اُتنی ہی ہے جتنی کہ براہ راست روایت کی اہمیت۔
ایک مرتبہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کی اجازت چاہی۔ آپ نے فرمایا۔ آنے دو، وہ اپنے خاندان میں بُرا ہے۔ جب وہ آ کر بیٹھا تو آپ نے اس سے نرمی کے ساتھ گفتگو کی۔ عائشہ صدیقہ کو تعجب ہوا۔ جب وہ چلا گیا تو عائشہ نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول، آپ تو اس کو اچھا نہیں جانتے تھے، لیکن جب وہ آیا تو آپ نے اس سے نرمی کے ساتھ گفتگو کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عائشہ، سب سے بُرا آدمی وہ ہے جس کی بداخلاقی سے ڈر کر لوگ اُس سے ملنا چھوڑ دیں(صحیح البخاری،حدیث نمبر6032 )۔
ایک دفعہ آپ نے فرمایا کہ اعتدال کے ساتھ کام کرو۔ لوگوں کو اپنے نزدیک کرو اور خوش خبری سُناؤ کہ لوگوں کا عمل اُن کو جنت میں نہ لے جائے گا۔ عائشہ صدیقہ کو یہ آخری بات عجیب معلوم ہوئی۔ وہ سمجھیں کہ جو لوگ معصوم ہیں وہ تو اس سے مستثنیٰہوں گے۔ پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،کیا آپ کو بھی نہیں۔فرمایا کہ نہیں،لیکنیہ کہ خدا اپنی مغفرت اور رحمت سے مجھے ڈھانک لے(صحیح البخاری،حدیث نمبر6467 )۔
ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چند یہودی آئے۔ انہوں نے السلام علیک (تم پر سلامتی ہو)کے بجائے زبان دبا کر السَّامُ عَلَيْكَ(تم کو موت آئے) کہا۔ عائشہ سُنرہی تھیں۔ وہ ضبط نہ کر سکیں اور بولیس: عَلَيْكُمُ السَّامُ وَاللَّعْنَةُ(تم پر موت اور لعنت)۔ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ تم کو نرمی اختیار کرنا چاہیے۔ خدا ہر بات میں نرمی پسند کرتا ہے( صحیح البخاری،حدیث نمبر6395 )۔
ایک روایت کے مطابق، عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ ایک مجلس میں صفیہ(زوجۂرسول) کا ذکر ہوا۔ صفیہ کسی قدر پستہ قد تھیں۔ عائشہ صدیقہ نے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ صفیہ تو بس اتنی ہیں(یعنی وہ پستہ قد ہیں)۔ رسول اللہ نے فرمایا کہ تم نے ایسی بات کہی کہ اگر وہ سمندر میں ڈال دی جائے تو سمندر کا پانی بھی آلودہ ہو جائے(سنن ابی داؤد، حدیث نمبر4875 )۔
اسی طرح کی ایک اور روایت عائشہ صدیقہ سے مروی ہے جس میں پیغمبر اسلام نے عائشہ صدیقہ کو مخاطب کر تے ہوئے کہا:إِيَّاكِ وَمُحَقِّرَاتِ الذُّنُوبِ(مسند احمد، حدیث نمبر25177) یعنی،تم چھوٹے گنا ہوں سے بچو۔
ان دونوں روایتوں سے ایک نہایت اہم بات معلوم ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ آدمی کو اُنگناہوں سے بھی بچنے کا شدید اہتمام کرنا چاہیے جن کو لوگ معمولی سمجھتے ہیں اور بار بار اُس میں ملوث ہوتے رہتے ہیں۔کیوں کہ اس طرح کی عادت عورت یا مرد کو گنا ہوں کے بارے میں غیرحساس بنا دیتی ہے۔ اور جو عورت یا مرد چھوٹے گناہ کے بارے میں حساسیت کھو دے وہ آسانی سے بڑے گناہ میں بھی مبتلا ہو جائے گا۔
ایک موقع پر آپ نے دعا مانگی:خداوندا،مجھے مسکین زندہ رکھ اور حالتِ مسکینی ہی میں موت دے، اور مسکینوں کے ساتھ قیامت میں اٹھا۔ عائشہ صدیقہ نے عرض کیا کہ یہ کیوں، یا رسول اللہ۔ آپ نے فرمایا کہ مسکین، دو لتمندوں سے چالیس سال پہلے جنت میں جائیں گے۔ اےعائشہ،تم کسی کو خالی ہاتھ واپس نہ کرنا، اگر چہ وہ چھوہارے کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو۔ مسکینوں سے محبت رکھو اور اُن کو اپنے پاس جگہ دیا کرو(سنن الترمذی، حدیث نمبر2352 )۔
مذکورہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام اور عائشہ صدیقہ کے درمیان محبت کا جو تعلق تھا وہ سادہ طور پر تکلم اور سامع کا تعلق نہ تھا۔ بلکہ وہ دو طرفہ گفتگو اور تبادلۂ خیال کا تعلق تھا۔ یہ گویا ایک قسم کامذاکرہ تھا۔ اس مذاکرہ کے دور ان باتوں کی وضاحت ہو تی تھی۔ سوال و جواب کی صورت میں معاملہ کےمختلفگوشے واضح ہو تے تھے۔
قرآن میں رسول کے چار کام بتائے گئے ہیں جن میں سےایک تزکیہ (آلعمران، 3:164) ہے۔ تزکیہ سے مراد کوئی پُر اسرار(mysterious)چیز نہیں۔ وہ ایک معلوم چیز ہے۔ اس سے وہی چیز مراد ہے جس کو ذہنیارتقاء(intellectual development) کہا جاتا ہے۔ ذہنیارتقاء ہی کے ایک نتیجہ کا نام روحانیارتقاء ہے۔ عائشہ صدیقہ کو یہ تمام فکری اور روحانی فائدے پیغمبر اسلام سے مسلسل استفادہ کے ذریعہ حاصل ہوئے۔