خلاصۂ کلام
اس دنیا کا نظام خالق فطرت نے زوجین کے اصول پر بنایا ہے۔ یہ اصول اتنا عام ہے کہ وہ صرف نر اور مادہ یامذکر اور مونث کے دائر ہ تک محد ود نہیں۔ دو عناصر کے ملنے سے ایک نتیجہ نکلنے کا یہ اصول اس سے بھی زیادہ عام ہے۔ وہ اس دنیا کی تقریباً ہر چیز پر چسپاں ہوتا ہے۔ اس دنیا میں کوئی بھی معنیٰ واقعہ دو کے ملنے سے انجام پاتا ہے۔ مثلاً دو گیسوں (ہائیڈروجن اور آکسیجن) کے ملنے سے پانی جیسی با معنیٰ چیز کا بننا ۔
اسی طرح’’دیکھنا‘‘اس دنیا کا ایک نہایت عجیب بامعنیٰ واقعہ ہے۔ اگر ہماری دنیامیں سب کچھ ہومگر یہاں دیکھنے کا ظاہر ہ موجود نہ ہوتو ساری دنیا اچانک ایک بےمعنیٰ قسم کا تاریک جنگل بن جائے گی۔
مگر دیکھنے کا یہ عمل دو چیزوں کی یکجائی سے وجود میں آتا ہے، اور وہ روشنی اور آنکھ ہے۔ اگر یہاں روشنی ہو کر آنکھ نہ ہو، یا آنکھ ہو کر روشنی نہ ہو تو دنیا میں سب کچھ ہو گا مگر دیکھنے کا واقعہ وجود میں نہیں آئے گا۔ جب کہ دیکھنے ہی کے واقعہ میں دنیا کی تمام رونقیں قائم ہیں۔
اسی قسم کا معاملہ عورت اور مرد کا بھی ہے۔ وہ چیز جس کو زندگی کی تعمیر کہا جاتا ہے، وہ صرف اس وقت وجود میں آ سکتی ہے جب کہ مرد اور عورت دونوں اس عمل میں برابر کا حصہ ادا کریں ۔ ان میں سے کوئی بھی تنہا زندگی کی تعمیر کے عمل کو انجام نہیں دے سکتا۔
تاہم اس مشترکہ عمل کو واقعہ بنانے کے لیے ایک چیز کی لازمی ضرورت ہے اور وہ ایڈجسٹمنٹ ہے۔ چکی کے دو پاٹ مل کر چلتے ہیں تب ایسا ہوتا ہے کہ گیہوں آٹے کی صورت اختیار کرے اور انسان کے لیے قابل استعمال خوراک بنے۔ مگر اس عمل میں چکی کے ایک پاٹ کو اوپر اور ایک پاٹ کو نیچے ہونا پڑتا ہے۔ اس عملی مفاہمت کے بعد ہی ممکن ہوتا ہے کہ چکی کے دو پاٹ کسی بامعنیٰ چیز کو وجود میں لاسکیں۔
اسی طرح زندگی کی تعمیر میں عورت اور مرد کو جومشترک عمل انجام دینا پڑتا ہے اس میں بھی ایڈجسٹمنٹ لازمی طور پر ضروری ہے۔
فطرت کے تخلیقی نقشہ کے مطابق، عورت نصفِ انسانیت ہے۔ عزت اور مرتبہ کے اعتبار سے عورت اور مرد دونوں کا درجہ مکمل طور پر برابر ہے۔ سماج اور قانون کی نظر میں یہ دونوں صنفیں ہر اعتبار سے یکساں حیثیت رکھتی ہیں۔ تاہم فطرت کے عام اصول کے مطابق،عورت اور مرد کے درمیان تقسیمِ کار کا طریقہ رکھا گیا ہے۔ انسانی سرگرمیوں کے کچھ شعبے مرد سے متعلق ہیں اور کچھ شعبے عورت سے متعلق کیے گئے ہیں۔ انسانی سماج کی مجموعی ترقی کے لیے اس سے بہتر کوئی اور نظام نہیں۔
اسلام کے مطابق، موجودہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے۔ مرد کا مرد ہونا بھی ایک ذمہ داری ہے، اور عورت کا عورت ہونا بھی ایک ذمہ داری۔ دونوں کے لیے کامیابی یا ناکامی کا ایک ہی معیار ہے۔ اور وہ یہ کہ دونوں اپنی تفویض کردہ ذمہ داری کی ادائیگی میں پورے اتریں۔
عورت نے ہمیشہ بڑے بڑے کارنامے انجام دیے ہیں ۔ اگر چہ مدون تاریخ میں اس کا تذکرہ بہت کم ملتا ہے۔ لیکن اس کمی کا تعلق صرف عورتوں سے نہیں، بلکہ اس کا تعلق مردوں سے بھی ہے ۔ تاریخ نویسی کا اسلوب جو قدیم زمانہ میں جاری ہوا، اس میں زیادہ تر جنگی اور سیاسی شخصیتوں کے تذکرے ہوتے تھے۔ بدقسمتی سے اب بھی یہ ذوق بڑی حد تک موجود ہے۔ چنانچہ غیر سیاسی مردوں کے کارنامے مدون تاریخ میں بہت کم پائے جاتے ہیں ۔ ٹھیک اسی طرح عورتوں کی غیر سیاسی خدمات بھی، اپنی تمام عظمتوں کے باوجود، تاریخ کے صفحات میں بہت کم جگہ پا سکی ہیں ۔
میرے مطالعہ اور تجربہ کے مطابق، دنیا کے تمام قابل ذکر واقعات کے پیچھے اکثر کوئی نہ کوئی عورت،ماں یا بیوی کے روپ میں موجود ہوتی ہے۔ آپ اگر کامیاب انسانوں کا سروے کریں اور ان سے پوچھیں کہ تمہاری زندگی کی کامیابی میں سب سے زیادہ کس کا ہاتھ ہے تو اکثر لوگ اپنی ماں یا اپنی بیوی یا کسی اور خاتون کا نام لیں گے۔ یہی معاملہ اُن لیڈروں کا ہے جن کی طرف بڑے بڑے واقعات منسوب کیے جاتے ہیں۔ اُن میں سے اکثرنے پر اقرار کیا ہے کہ ان کی شخصیت کو بنانے میں سب سے زیادہ دخل ان کی ماں یا ان کی بیوی یا اورکسی قریبی خاتون کا تھا۔ مشہور امریکی موجد اڈیسن (Thomas Alva Edison) کا قول ہے:
The real force behind all of my successes is my mother.
اس اعتبار سے دیکھئے تو زندگی کی تعمیر میں سب سے زیادہ مؤثر حصہ عورت کا ہوتا ہے،کبھی اعلان کے ساتھ اور اکثربلا اعلان ۔ یہ ایک ایسا انسانی تجربہ ہے جوخوا ہ مدون تاریخ کے صفحات میں جگہ نہ پا پا سکا ہومگر اپنے ذاتی تجربہ کی روشنی میں ہر آدمی اس کو جانتا ہے۔
موجودہ زمانہ میں آزادیٔ نسواں کی تحریک عالمی سطح پر چلائی گئی۔ میرے نزدیک یہ ایک غیر فطری تحریک تھی۔ زیادہ صحیح یہ ہے کہ ذمہ داریٔ نسواں کی تحریک چلائی جائے۔ ذمہ داریٔ نسواں کی تحریک عورتوں کے تعمیری کردار کو اُبھارتی۔ مگر آزادیٔ نسواں کی غیرفطری تحریک نے صرف بے قیدی کا مزاج پیدا کیا۔
موجودہ زمانہ میں آزادی نسواں کی اس غیر فطری تحریک نے جو سب سے بڑا نقصان پہنچایا ہے وہ یہ کہ انسانی تعمیر کا نصف ادارہ ٹوٹ پھوٹ گیا۔ یہاں تک کہ وہ انسانیت کی تعمیر میں اپنا حصہ ادا کرنے کے قابل نہ رہا۔ اب انسانیت کا مستقبل اس پرمنحصر ہے کہ اس داخلی اد ارہ کو دو بارہ اسی طرح قائم کیا جائے جس طرح وہ پہلے قائم تھا۔ انسانیت کی تاریخ اسی مقام پر رُکی ہوئی ہے اور اس تاریخ کو دوبارہ اسی مقام سے سرگرمِ سفر کیا جا سکتا ہے۔
عورت ہو یا مرد، دونوں کے لیے مقدر ہے کہ وہ انسانیت کی تعمیر میں ایک عظیم کردار ادا کریں ۔ اس کردار کی کامیاب ادائیگی کے لیے دونوں کو یہ کرنا ہے کہ اس مقصد کے لیے اپنے آپ کو تیار کریں ۔وہ اُس فن کوسیکھیں جس کوفن تنظیم حیات( art of life management) کہا جا سکتا ہے۔ وہ اپنی شخصیت میں چھپے ہوئے امکانات (potentials)کو جا نیں ۔ وہ اپنی ڈی کنڈیشننگ(de-conditioning)کر کے اپنے اندر حقیقت پسندی کا مزاج پیدا کریں۔ وہ ذہنی ارتقاء(intellectual development)کے ذریعہ اپنی فکری سطح کو بلند کریں۔ وہ اصولِ تمیز (principle of differentiation) میں درک حاصل کریں ۔
اسی کے ساتھ وہ اس حقیقت کو جانیں کہ اس دنیا میں صبر کے بغیر کوئی بڑا کام نہیں کیا جاسکتا۔ صبر انسان کے اندر اعتدال پیدا کرتا ہے۔ صبر انسان کو اس سے بچاتا ہے کہ وہ غیر ضروری طور پر اپنی طاقت کو ضائع کرے ۔ صبر انسان کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اختلاف کوٹکراؤ تک نہ جانے دے ۔ صبر متحدہ جدو جہد کی لازمی ضرورت ہے۔ صبر مایوسی کو اُمید میں تبدیل کرتا ہے۔ صبر آدمی کے اندر یہ پختگی(maturity)پیدا کرتا ہے کہ جو چیز یں بدلنے کے قابل ہیں اُن کو وہ بد لے اور ان چیزوں کے ساتھ وہ ایڈجسٹمنٹ کا معاملہ کرے جن کو و ہ بدل نہیں سکتا۔
زندگی میں کوئی بڑا رول ادا کرنے کے لیے انسان کو اپنی انا کے خول سے باہر آنا پڑتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ سطحیت اور خود غرضی اور تنگ نظری جیسی کمزوریوں سے پاک ہو۔ وہ سادہ زندگی اور اعلی سوچ(simple living, high thinking)کی خصوصیت اپنے اندر رکھتا ہو۔ وہ وقت کی قدر کو پانے اور اس کو بھر پور طور پر استعمال کرے۔ وہ اپنے آپ کو غیر اہم یا غیر متعلق چیزوں میں الجھنے سے بچائے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر عورت اور ہر مرد کی حیثیت پیدائشی طور پر ایک عظیم امکان کی ہے۔ اس امکان کو واقعہ بنانے ہی کا دوسرا نام کا میابی ہے۔
وحید الدین
نئی دہلی، 19 جولا ئی 2004