تعمیر شعور
دوسری جنگ عظیم تک امریکہ ساری دنیا میں موٹر کار کا سب سے بڑا تاجر تھا۔ ہر آدمی کے ذہن پر رولس رائس کار کی عظمت چھائی ہوئی تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی کی ووکس ویگن کا زمانہ آیا۔ 1970ء تک 140 ملکوں میں 16 ملین سے زیادہ ووکس ویگن گاڑیاں فروخت ہو چکی تھیں۔ مگر اب جاپانی کاروں کا زمانہ ہے۔ آج ٹویوٹا (نہ کہ جنرل موٹر س) کاروں کی دنیا کا بادشاہ ہے۔ امریکہ کی سڑکوں پر آج جو کاریں دوڑتی ہیں ان میں 35 فیصد کاریں جاپان کی بنی ہوئی ہوتی ہیں۔
آج دنیا بھر میں استعمال ہونے والا الیکٹرانک سامان 80 فیصد جاپان کا بنا ہوا ہوتا ہے۔ امریکہ کا اپالو دوم جب چاند پر گیا۔ تو اس کے اندر رکھنے کے لیے ایک بہت چھوٹے ٹیپ ریکارڈر (کیسٹ ریکارڈر) کی ضرورت تھی۔ اتنا چھوٹا اور بالکل صحیح کام کرنے والا ریکارڈر صرف جاپان فراہم کر سکتا تھا۔ چنانچہ اپالو دوم کے ساتھ جاپانی ساخت کا ریکارڈر رکھ کر اسے چاند پر روانہ کیا گیا۔
دوسری جنگ عظیم تک جاپان کا یہ حال تھاکہ میڈ ان جاپان (Made in Japan) کا لفظ جس سامان پر لکھاہوا ہو،اس کے متعلق پیشگی طور پر یہ سمجھا جاتا تھا کہ یہ سستا اور ناقابل اعتماد ہو گا۔ جاپانی سامان کی تصویر اتنی گھٹیا تھی کہ مغربی ملکوں کے تاجر جاپانی ساخت کاسامان اپنی دکان پررکھنا اپنی ہتک سمجھتے تھے۔ پھر صرف 40 سال کے اندر جاپان نے کس طرح ایسی انقلابی ترقی حاصل کر لی۔ ایک امریکی عالم ولیم او یو چی (William O'uchi) کے الفاظ میں اس کا راز اپنے کارکنوں کے اندر داعیہ پیداکرنا (motivation of the employees) ہے۔
جاپانیوں نے اپنے یہاں ابتدائی تعلیم کا انتہائی اعلیٰ معیار قائم کیا۔ انہوں نے ابتدائی معلموں کو اعلیٰ تنخواہ اور پروفیسروں والااعزاز دینا شروع کیا اور اس طرح اعلیٰ ترین صلاحیت کے اساتذہ کو اپنی نئی نسل کی تعلیم و تربیت پر لگا دیا۔ انہوں نے اپنے افراد میں نہایت گہرائی کے ساتھ یہ شعور پیداکیا کہ صنعت میں اصل چیز معیار (Quality) ہے۔ جدید جاپان میں ہرجگہ کوالٹی کنٹرول سرکل قائم ہیں۔ 1980ء تک ایک لاکھ کوالٹی کنٹرول رجسٹرڈ سرکل ہو چکے تھے۔ اس کے علاوہ کہا جاتا ہے کہ ایک ملین غیر رجسٹرڈ کوالٹی سرکل بھی جاپان میں موجود ہیں۔