فتح بغیر جنگ
مسٹر رچرڈنکسن1968ء سے1974ء تک امریکہ کے پریذیڈنٹ تھے۔ انہوں نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل ایک کتاب شائع کی ہے جس کا نام ہے—1999ء، جنگ کے بغیر فتح:
Richard Nixon,1999: Victory Without War
اس کتاب میں جو باتیں کہی گئی ہیں، ان میں سے ایک بات امریکہ اور جاپان کے باہمی تعلق کے بارے میں ہے۔ اس سلسلہ میں مسٹر نکسن نے جو باتیں لکھی ہیں، ان میں سے ایک بات مختصر طور پر یہ ہے:
The Americans decimated Japan in 1945, and after World War II, rebuilt it with enormous economic backing as a model country to disprove the communist ideology that poverty cannot be removed through the process of capitalism. Democracy was planted on its territory in place of ancient monarchy. Its constitution was written by the Americans. Its defence was controlled from Washington DC. After 35 years of this experiment, bitter ecnomic disagreements have clouded In US-Japan relations in recent years. There is a terrific trade imbalance. In 1986 Japan sold goods to the US to the value of $60 billion in excess of the goods purchased from the States, contributing to the total American trade deficit of $170 billion. Indigenous rice production costs Japan $2,000 a ton, yet she is not prepared to buy rice from her benefactor, the US, offered at $180 a ton with a view ''to protect Japanese farmers''. The US is sore that the ''Japanese have closed their markets to American goods''(p.2)
امریکیوں نے 1945ء میں جاپان پر ایٹم بم سے حملہ کرکے اس کے بڑے حصہ کو تباہ کر دیا۔ پھر دوسری عالمی جنگ کے بعد انہوں نے زبردست اقتصادی امداد کے ذریعہ جاپان کی دوبارہ تعمیر کی۔ جاپان کے ساتھ یہ معاملہ انہوں نے اپنے ذاتی مقصد کے لیے، ایک نمونہ کے ملک کے طور پر کیا۔ اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ اس اشتراکی نظریہ کو غلط ثابت کر سکیں کہ غریبی کو سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ختم نہیں کیا جا سکتا۔
چنانچہ جاپان میں قدیم بادشاہت کی جگہ جمہوریت لائی گئی۔ امریکیوں نے خود وہاں کا دستور لکھ کر تیار کیا۔ اس کا دفاع مکمل طور پر واشنگٹن کے تحت کر دیا گیا۔
اس تجربہ کے 35 سال بعد تلخ اقتصادی اختلافات کے بادل امریکہ اور جاپان کے تعلقات پر چھا گئے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی توازن ہولناک حد تک بگڑ گیا۔1986ء میں امریکہ نے جتنا سامان جاپان کے ہاتھ بیچا، اس کے مقابلہ میں جاپان نے ساٹھ بلین ڈالر کے بقدر زیادہ سامان امریکہ کے ہاتھ فروخت کیا۔ واضح ہو کہ اس سال امریکہ کا کل تجارتی خسارہ170 بلین ڈالر تھا۔ جاپان اس پوزیشن میں ہو چکا ہے کہ اس نے امریکی چاول کی خریداری کے لیے 180 ڈالر فی ٹن کی پیش کش کو رد کر دیا جب کہ اسے اپنے ملک میں چاول پیدا کرنے کے لیے2000 ڈالر فی ٹن خرچ کرنا پڑتا ہے۔ اب امریکہ کو یہ شکایت ہے کہ جاپانیوں نے امریکی سامان کے لیے اپنی مارکیٹ کو بند کر دیا ہے۔(ٹائمس آف انڈیا2 اپریل 1989ء)
دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ کی حیثیت فاتح اور غالب کی تھی، اور جاپان کی حیثیت مفتوح اور مغلوب کی۔ مگر فاتح نے جو اقدامات اپنے مفاد کے لیے کیے، اس کو مفتوح نے اپنے مفاد میں تبدیل کر لیا۔ یہی موجودہ دنیا کا امتحان ہے۔ اس دنیا میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو دشمن کے مخالفانہ منصوبوں میں اپنے لیے موافق پہلو تلاش کر لیں جو دشمن کی تدبیروں کو اپنے لیے زینہ بنا کر آگے بڑھ جائیں۔
اس دنیا میں شکست بھی فتح کا دروازہ کھولتی ہے۔ یہاں جنگ کے بغیر بھی کامیاب مقابلہ کیا جاتا ہے۔ مگر یہ سب کچھ دانش مندوں کے لیے ہے۔ نادانوں کے لیے خدا کی اس دنیا میں کوئی بھی حقیقی کامیابی مقدر نہیں۔ ان کے لیے فتح بھی شکست ہے، اور شکست بھی شکست۔