زندگی کا راز
1947ء میں برصغیر ہند کو آزادی ملی تو ایک طرف اہل پاکستان تھے جن کی نمائندگی کرتے ہوئے مسٹر محمد جناح نے کہا کہ ہم کو کٹا پٹا اور کرم خوردہ پاکستان (truncated and moth-eaten Pakistan) ملا ہے۔ ان کے خوابوں کے پاکستان میں پنجاب اور بنگال کا پورا صوبہ شامل تھا۔ وہ پورے کشمیر کو اپنے ملک کا حصہ دیکھنا چاہتے تھے۔ اس لیے موجودہ پاکستان انہیں اپنی امیدوں سے کم نظر آیا۔ دوسری طرف اہل ہند کا حال بھی یہی ہوا۔ یہاں کے لوگوں کے ذہن میں آزاد ہندوستان یا سوتنتر بھارت کا جو تصور تھا، موجودہ ملک اس سے کم تھا۔ چنانچہ آزادی کے بعد بھی کروڑوں لوگ اسی احساس کا شکار رہے کہ ان کا محبوب بھارت انہیں ٹکڑے ہو کر ملا ہے۔ انہوں نے جو کچھ چاہا تھا، اس سے بہت کم ہے وہ جو عملاً انہیں حاصل ہوا ہے۔
آزادی بظاہر پانے کے انجام پر ختم ہوئی تھی۔ مگر مذکورہ اسباب کی بنا پر اس نے نہ پانے کے احساس کی صورت اختیار کر لی۔ سرحد کے دونوں طرف سیاسی محرومی کا جذبہ بھڑک اٹھا۔ دونوں ایک دوسرے کو اپنا دشمن سمجھ کرایک دوسرے کی کاٹ میں لگ گئے۔ دونوں اس کوشش میں مصروف ہو گئے کہ یا تو ماضی کی سیاسی امنگوں کو دوبارہ واقعہ بنائیں یا کم از کم ایک دوسرے کے خلاف کارروائیاں کر کے اپنے سینہ میں جلتی ہوئی احساس محرومی کی آگ کو ٹھنڈا کریں۔
اس سے مختلف مثال جاپان کی ہے۔ دوسری جنگ عظیم نے اس کا جغرافی رقبہ بھی گھٹا دیا اور اس کی سیاسی اور فوجی آزادی بھی اس سے چھین لی۔ مگر اہل جاپان نے کھوئی ہوئی چیز کو بھلا دیا۔ اور جو چیز اب بھی انہیں حاصل تھی، اس پر قناعت کرتے ہوئے عملی جدوجہد شروع کر دی— چالیس سال بعد آج جاپان ترقی کی چوٹی پر پہنچ گیا ہے، اور ہندوستان اور پاکستان کے حصہ میں صرف یہ آیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو اپنی بربادی کا ذمہ دار ٹھہرانے کے لیے الفاظ کا جھوٹا طوفان برپا کرتے رہیں۔
زندگی کم تر پر راضی ہونے کا نام ہے۔ اس دنیا میں جو کم پر راضی ہو جائے وہ زیادہ پاتا ہے اور جو کم پر راضی نہ ہو، وہ کم سے بھی محروم رہتا ہے اور زیادہ سے بھی۔