تخریبی منصوبہ
انڈیا کے سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کو مدراس میں 21 مئی 1991ء کو قتل کر دیا گیا تھا۔ قتل کرنے والے لنکا کے تامل ٹائیگرز (LTTE) تھے۔ انہوں نے اس مقصد کے لیے اتنی کامیاب منصوبہ بندی کی تھی کہ بظاہر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ کبھی پکڑے نہ جا سکیں گے۔ مگر آخرکار 20 اگست 1991ء کو پولیس بنگلور ٹھیک اس مکان تک پہنچ گئی، جہاں اس قتل کا اصل ذمہ دار (ماسٹر مائنڈ) 23 سالہ سیوارسن (Sivarasan) چھپا ہوا تھا۔ پولیس کی بھاری جمعیت کو دیکھ کر سیوارسن اور اس کے ساتھیوں نے سائنائڈ کھا کر خودکشی کر لی۔
سیوارسن کے اس طرح پکڑے جانے کی وجہ اس کی ایک ’’غلطی‘‘ تھی۔ 21 مئی کو جب سیوارسن اپنی ٹیم کے ساتھ اس جلسہ گاہ میں پہنچا جہاں اسے راجیو گاندھی کو قتل کرنا تھا تو اس نے اپنا حلیہ پریس رپورٹر جیسا بنایا تھا۔ اپنی اس تصویر کو مزید مکمل کرنے کے لیے اس نے ایک مقامی فوٹوگرافر ہری بابو کو ساتھ لے لیا۔
ہری بابو صرف ایک کرایہ کا آدمی تھا۔ مصلحت کی بنا پر اس کو اصل منصوبہ سے بے خبر رکھا گیا تھا۔ ہری بابو نے حسب معمول مختلف رخ سے راجیو گاندھی کی تصویریں لیں۔ انہیں میں ایک تصویر ایسی تھی جس میں سیوارسن کی تصویر بھی آ گئی۔ جب وہ بم پھٹا جس نے راجیو گاندھی کو ہلاک کیا تھا تو اس کے بعد قریب کے جو لوگ مرے ان میں سے ایک مذکورہ ہری بابو بھی تھا۔ سیوارسن بچ کر بھاگ جانے میں کامیاب ہو گیا مگر اس کے ’’فوٹو گرافر‘‘ کا کیمرہ پولیس کے قبضہ میں آ گیا۔ پولیس نے اس کیمرہ کے اندر سے سیوارسن کا فوٹو حاصل کر کے اسے اخباروں میں چھاپ دیا اور اعلان کیا کہ جو شخص اس فوٹو والے کا پتہ دے گا اس کو دس لاکھ روپیہ انعام دیا جائے گا۔ بنگلور کی ایک دودھ والی عورت جو سیوارسن کو روزانہ دودھ پہنچاتی تھی ، اس نے فوٹو کی مدد سے سیوارسن کو پہچان لیا۔ اس کی سراغ رسانی پر پولیس بنگلور کے مضافات میں مذکورہ مکان پر پہنچ گئی (ٹائمس آف انڈیا 21 اگست 1991ء) ۔
ایک تخریبی واقعہ کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے بے شمار عوامل کی مساعدت درکار ہوتی ہے۔ انسان اپنی محدودیت کی بنا پر ان کی رعایت نہیں کر پاتا۔ کوئی نہ کوئی رخنہ ہر تخریبی منصوبہ میں رہ جاتا ہے۔ یہی رخنہ تخریب کار کے منصوبہ کو ناکام بنا دیتا ہے۔