مقابلہ کی ہمت

جے آر ڈی ٹاٹا(J. R. D. Tata, b. 1904) ہندوستان کے چند انتہائی بڑے صنعت کاروں میں سے ہیں۔ بوقت تحریر ان کی عمر85 سال کی ہے۔ اب بھی وہ ہوائی جہاز چلاتے ہیں، اور برف پر اسکیئنگ(skiing) کرتے ہیں۔ اتنی بڑی عمر میں اس کی اس صحت کا راز کیا ہے، اس کے جواب میں انہوں نے کہا— جو چیزیں مجھ کو برابر جوان رکھتی ہیں ان میں سے ایک یہ حقیقت ہے کہ میں خطرات میں جینے کے لیے تیار رہتا ہوں۔ زندگی کا کارآمد بنانے کی خاطر آپ کو رسک لینے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ بزنس، کھیل، شادی، ہر چیز میں رسک:

one of the thing that keep me young is the fact that I am prepared to live dangerously. You must be prepared to take risk in business, sport, marriage, everything, to make life worthwhile. (Hindustan Times, 13 July, 1991, p.4)

انگریزی کا مثل ہے کہ رسک نہیں تو کامیابی بھی نہیں (no risk no gain)۔ یہاں سوال یہ ہے کہ رسک اور خطرات کیوں آدمی کو کامیابی اور ترقی کی طرف لے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسک آدمی کی قوتوں کو جگاتا ہے، وہ ایک معمولی انسان کو غیر معمولی انسان بنا دیتا ہے۔

آدمی اگر خطرات کا سامنا نہ کرے، وہ رسک کی صورتوں سے دور رہے تو وہ سست اور کاہل انسان بن جائے گا۔ اس کی فطری صلاحیتیں خوابیدگی کی حالت میں پڑی رہیں گی۔ وہ ایسا بیج ہوگا جو پھٹا نہیں کہ درخت بنے، وہ ایسا ذخیرہ آب ہوگا جس میں موجیں نہیں اٹھیں، جو طوفان کی صورت اختیار کرے۔

 مگر جب آدمی کو خطرات پیش آتے ہیں، جب اس کی زندگی رسک کی حالت سے دو چار ہوتی ہے تو اس کی شخصیت کے اندر چھپی ہوئی فطری استعداد جاگ اٹھتی ہے۔ حالات کا دبائو اس کو مجبور کر دیتا ہے کہ وہ متحرک ہو جائے، وہ اپنی ساری طاقت اپنے کام میں لگا دے۔ ہر آدمی کے اندر اتھاہ صلاحیتیں ہیں۔ مگر یہ صلاحیتیں ابتدائی طور پر سوئی ہوئی ہوتی ہیں۔ وہ کبھی جگائے بغیر نہیں جاگتیں۔ ان صلاحیتوں کو جگانے کا ایک ہی طریقہ ہے۔ وہ یہ کہ انہیں چیلنج سے سابقہ پیش آئے۔ انہیں خطرات کا سامنا کرنا پڑے۔ عافیت کی زندگی بظاہر سکون کی زندگی ہے۔ مگر عافیت کی زندگی کی یہ مہنگی قیمت دینی پڑتی ہے کہ آدمی کی شخصیت ادھوری رہ جائے۔ وہ اپنی امکانی ترقی کے درجہ تک نہ پہنچ سکے۔

6 جنوری1990ء کے اخبارات جو خبریں لائے، ان میں سے ایک خبر یہ تھی کہ اظہر الدین کو اتفاق رائے سے قومی ٹیم کا کیپٹن مقرر کیا گیا ہے۔ وہ نیوزی لینڈ جانے والی انڈین کرکٹ ٹیم کے لیڈر ہوں گے۔ یہ بات کرکٹ حلقوں کے لیے انتہائی تعجب خیز تھی۔ کیوں کہ عام خیال تھا کہ یہ عہدہ سری کانت کو دیا جائے گا جو شارجہ کپ، نہرو کپ اور پاکستان کے دورہ پر جانے والی حالیہ ٹیم کے کپتان رہے ہیں۔27 سالہ اظہر الدین حیدر آبادی کو کرکٹ میں ان کی مہارت کی وجہ سے ونڈر بوائے(wonder boy) کہا جاتا ہے۔ اظہر الدین ہندوستانی کرکٹ کے دوسرے کم عمر کپتان ہیں۔ ان سے قبل منصور علی خان پٹودی21 سال کی عمر میں قومی ٹیم کے کپتان بنائے گئے تھے۔

 اظہر الدین کو جس چیز نے اس اعلیٰ عہدے پر پہنچایا، وہ ان کی یہ صلاحیت ہے کہ چیلنج پیش آنے پر وہ بے ہمت نہیں ہوتے، بلکہ مزید طاقت کے ساتھ اس کا مقابلہ کرتے ہیں۔ دسمبر1989ء میں دورہ پاکستان کے آغاز میں اظہر الدین کا ٹیسٹ کیریر خطرہ میں پڑ گیا تھا۔ کیوں کہ فیصل آباد ٹیسٹ کی پہلی باری میں وہ کوئی خاص اسکور نہ کر سکے تھے، بلکہ صفر پر ہی آئوٹ ہوگئے تھے۔ لیکن دوسری باری میں شاندار سنچری بنا کر انہوں نے اپنا ٹیسٹ کیریر تباہ ہونے سے بچالیا۔

 ٹائمس آف انڈیا(6جنوری1990ء) کی رپورٹ کے مطابق، سلیکشن کمیٹی کے چیئرمین مسٹر راج سنگھ دونگرپور نے کہا کہ اظہر الدین کو منتخب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ چیلنج کا مقابلہ کرنے کو محبوب رکھتے ہیں، جیسا کہ پاکستان کے دورہ میں دیکھا گیا جہاں وہ پہلے ٹیسٹ میں چنے نہ جانے کے قریب پہنچ گئے تھے۔ اور یہ قیادت کی نہایت اہم خصوصیت ہے:

He loves getting out of challenging situations, as was seen on the tour of pakistan where he was on the verge of being dropped from the first Test, and that`s an important ingredient in leadership.

یہ دنیا چیلنج کی دنیا ہے۔ یہاں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو چیلنج کا سامنا کرنے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔ یہ صفت کسی آدمی کے اندر جتنی زیادہ ہوگی اتنی ہی زیادہ بڑی کامیابی وہ اس دنیا میں حاصل کرے گا۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom