چیلنج نہ کہ ظلم
ایڈمنڈبرک(Edmund Berke) کا قول ہے کہ جو شخص ہم سے لڑتا ہے وہ ہمارے اعصاب کو مضبوط کرتا ہے اور ہماری استعداد کو تیز بناتا ہے۔ ہمارا مخالف ہمارا مدد گار ہے:
He that wrestles with us, strengthens our nerves, and shapens our skill. Our antagonist is our helper.
یہ عین وہی بات ہے جو شیخ سعدی نے گلستاں کی ایک کہانی کے تحت تمثیلی طور پر اس طرح کہی ہے کہ کیا تم دیکھتے نہیں کہ بلّی جب عاجز ہو جاتی ہے تو وہ اپنے چنگل سے شیر کی آنکھ نکال لیتی ہے:
نہ بینی کہ چوں گربہ عاجز شود برآرد بہ چنگال چشم پلنگ
دوسروں کی طرف سے آپ کے خلاف کوئی واقعہ پیش آئے تو اس کے ردعمل کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ آپ اس کو ظلم سمجھیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آپ اس کو چیلنج قرار دیں۔ ظلم سمجھنے کی صورت میں شکایت کا ذہن پیدا ہوتا ہے، اور چیلنج سمجھنے کی صورت میں مقابلہ کا۔
شکایتی ذہن کو اپنے کرنے کا کام صرف یہ نظر آتا ہے کہ وہ فریق ثانی کے خلاف چیخ پکار شروع کر دے۔ وہ اس کے خلاف اپنے تمام احتجاجی الفاظ استعمال کر ڈالے۔ اس کے برعکس، مقابلہ کا ذہن عمل کی طرف لے جاتا ہے۔ وہ حالات کو سمجھ کر جوابی طریقہ تلاش کرنے میں لگ جاتا ہے تاکہ حکمت اور تدبیر کے ذریعہ فریق ثانی کے مخالفانہ منصوبوں کو ناکام بنا دے۔
شکایت اور احتجاج کا ذہن آدمی کو ایسے راستوں کی طرف لے جاتا ہے جہاں وہ اپنی بچی ہوئی قوت بھی بے فائدہ ہنگاموں میں ضائع کر دے۔ جب کہ چیلنج اور مقابلہ کا ذہن آدمی کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو جگاتا ہے، وہ اس کو نیا حوصلہ عطا کرتا ہے۔ وہ اس کو اتنا عظیم بنا دیتا ہے کہ کمزور بھی طاقت ور پر غالب آ جائے، اور بلّی بھی شیر کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دے۔
موجودہ دنیا مقابلہ کی دنیا ہے۔ یہاں شکایت کا ذہن آدمی کو تباہی کی طرف لے جاتا ہے اور تدبیر کا ذہن تعمیر و ترقی کی طرف۔ آپ راستہ چل رہے ہیں۔ درمیان ایک جھاڑی کے کانٹے سے آپ کا دامن الجھ جاتا ہے۔ ایسے وقت میں آپ کیا کرتے ہیں۔ آپ ’’شکایت‘‘ کے بجائے ’’تدبیر‘‘ کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ آپ جھاڑی کے خلاف احتجاج نہیں کرتے، بلکہ یہ سوچنے لگتے ہیں کہ کون سی صورت اپنائیں جس سے مسئلہ حل ہو جائے۔
عقل مند آدمی جانتا ہے کہ یہی طریقہ اس کو انسان کے مقابلہ میں بھی اختیار کرنا ہے۔ انسانوں کے درمیان رہتے ہوئے بھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی شخص سے ٹکرائو ہو جاتا ہے۔ کسی سے کوئی تکلیف پہنچ جاتی ہے۔ کسی شخص کے متعلق ہمارا احساس ہوتا ہے کہ اس نے ہمارا حق ہم کو نہیں دیا۔ ایسے ہر موقع پر دوبارہ ہمیں شکایت کے بجائے تدبیر کا انداز اپنانا چاہیے۔
زندگی کا ہر مسئلہ ایک چیلنج ہے ، نہ کہ ایک شخص کے اوپر دوسرے شخص کی زیادتی۔ آپ کے ساتھ کوئی مسئلہ پیش آئے، اور آپ اس کو زیادتی سمجھیں تو اس سے شکایت اور احتجاج کا ذہن پیدا ہوگا۔ حتیٰ کہ یہ ذہن آپ کو یہاں تک لے جا سکتا ہے کہ آپ مایوسی کا شکار ہو جائیں۔ آپ یہ سمجھ لیں کہ موجودہ ماحول میں آپ کے لیے کچھ کرنا ممکن ہی نہیں۔ شکایت کا ذہن مایوسی تک لے جاتا ہے، اور مایوسی کا ذہن نفسیاتی خودکشی تک۔
اس کے برعکس، اگر آپ کا یہ حال ہو کہ جب کوئی مسئلہ پیش آئے تو آپ اس کو اپنے لیے ایک چیلنج سمجھیں، تو اس سے آپ کی سوئی ہوئی صلاحیتیں بیدار ہوں گی۔ آپ کے اندر حالات سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ پیدا ہوگا۔ اول الذکر صورت میں آپ کا ذہن اگر منفی رخ پر چل رہا تھا تو اب آپ کا ذہن تمام تر مثبت رخ پر چل پڑے گا— یہی ایک لفظ میں، موجودہ دنیا میں کامیابی اور ناکامی کا راز ہے۔ اس دنیا میں جو شخص مسائل سے شکایت اور احتجاج کی غذا لے، اس کے لیے یہاں بربادی کے سوا کوئی اور چیز مقدر نہیں۔ اس کے برعکس جس شخص کا حال یہ ہو کہ مسائل کا سامنا پیش آنے کے بعد اس کا ذہن تدبیر تلاش کرنے میں لگ جائے۔ وہ لازماً کامیاب ہو کر رہے گا، کیوں کہ اس دنیا میں ہر مسئلہ کا ایک حل ہے، اور ہر مشکل کی ایک تدبیر۔