بلند پروازی
جاپان ائیر لائنز کا ایک جہاز (بوئنگ 747) 12 اگست 1985ء کو ٹوکیو سے اڑا۔ اسے ایک گھنٹہ میں اوساکا پہنچنا تھا۔ مگر اڑان کے صرف 10 منٹ بعد پائلٹ نے محسوس کیا کہ اس نے جہاز پر اپنا کنٹرول کھو دیا ہے۔ جہاز کو 24 ہزار فٹ کی بلندی پراڑنا تھا۔ مگر وہ اترتے اترتے 9800 فٹ کی بلندی پر آگیا اور بالآخر وہ پہاڑ سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا۔ اس جہاز کے 520 مسافر مر گئے۔ ان مرنے والوں میں ہندوستان کے ایک انجینئر مسٹر کلیان مکرجی اور ان کی بیوی بھی تھے۔ مسٹر مکرجی کی عمر بوقت حادثہ 41 سال تھی۔ وہ ایک تجارتی مہم پر حال میں جاپان گئے تھے۔ جاپان سے انہوں نے اپنے لڑکے نرنجن مکرجی (13 سال) کے نام خط لکھاکہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ 12 اگست کو ایک تفریحی سفر (pleasure trip) پر ٹوکیو سے اوساکا جا رہے ہیں۔ (ہندوستان ٹائمس 14 اگست 1985)
جہاز کو بلندی پر اڑانے کاایک مقصد یہ ہے کہ وہ پہاڑوں یا اونچی عمارتوں سے نہ ٹکرائے۔ مذکورہ جہاز کے لیے ’’24 ہزار فٹ‘‘ کی بلندی ایک محفوظ بلندی تھی۔ مگر جب اس کے انجن میں خرابی آ گئی تو وہ اس محفوظ بلندی پر قائم نہ رہ سکا۔ وہ اترتے اترتے ’’9800‘‘ فٹ کی بلندی پر آ گیا۔ اب وہ محفوظ بلندی کی سطح پر نہ رہا۔ چنانچہ وہ پہاڑ سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا۔
یہی معاملہ انسانی زندگی کا بھی ہے۔ ہماری زندگی کا سفر بے شمار انسانوں کے درمیان ہوتا ہے۔ اگر ہم اپنے فکر و خیال کے اعتبار سے نچلی سطح پر سفر کریں تو بار بار دوسروں سے ٹکرائو ہوتا رہے گا۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ آدمی فکر و خیال کے اعتبار سے اپنے آپ کو اتنی بلندی پر پہنچا دے کہ دوسروں سے ٹکرائو کا امکان ہی اس کے لیے ختم ہو جائے۔ اعراض کا اسلامی اصول آدمی کو یہی بلندی عطا کرتا ہے۔ اعراض اپنی حقیقت کے اعتبار سے عین وہی چیز ہے جس کو بعض مفکرین نے زندگی کے مسئلہ کا برتر حل (superior solution) کہا ہے۔ برابر کی سطح پر سفر کرنے میں دوسروں سے ٹکرائو کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اس لیے دانش مند آدمی اپنے سفر کی سطح کو بلند کر لیتا ہے۔ تاکہ دوسروں کے ساتھ اس کا ٹکرائو نہ پیش آئے۔ اسی برتر حکمت کو اختیار کرنے کا نام اعراض ہے۔