زندگی، موت
انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے مجبور ہے کہ وہ کسی کو عظمت کا مقام دے۔ یہ انسانی نفسیات کا تقاضا ہے۔ اب جو شخص اللہ کو عظیم سمجھے وہ موحّد ہے، اور جو آدمی کسی اور چیز کو عظیم سمجھ لے وہ مشرک۔ قرآن میں سابق اہلِ کتاب کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے بعد کے زمانہ میں اپنے احبار اور اپنے رہبان کو اپنا رب بنا لیا (التوبہ، 9:31) یہ ایک مثال کی صورت میں بتایا گیا ہے کہ دورِ زوال میں قوموں اور امتوں کا حال کیا ہوتا ہے۔ وہ توحید پرستی کے مقام سے گر کر اکابر پرستی کی بیماری میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔
قوم جب زندہ ہو تو وہ اقدار (values) کی پرستار ہوتی ہے اور جب وہ مُردہ ہو جائے تو اس کے قومی اکابر اس کی پرستاری کا مرکز بن جاتے ہیں۔ یہی ایک لفظ میں، زندہ اور مردہ قوم کا خلاصہ ہے۔ زندہ قوم مقاصد کو اہمیت دیتی ہے اور مردہ قوم رجال کو۔ زندہ قوم حال میں جیتی ہے اور مردہ قوم گزرے ہوئے ماضی میں۔ زندہ قوم تنقید کا استقبال کرتی ہے اور مردہ قوم تنقید پر بپھر اٹھتی ہے۔ زندہ قوم حقیقی ایشو پر کھڑی ہوتی ہے اور مردہ قوم فرضی ایشو پر زندہ قوم کو ہر ایک اپنا دوست نظر آتا ہے اور مردہ قوم کو ہر ایک اپنا دشمن ۔ زندہ قوم اپنا مستقبل آپ بناتی ہے اور مردہ قوم دوسروں کے خلاف شکایت اور احتجاج میں مشغول رہتی ہے۔ زندہ قوم کی صفت تحمل اور برداشت ہے اور مردہ قوم کی صفت عدم تحمل اور عدم برداشت ۔
جب کسی قوم کے افراد میں وہ علامتیں ظاہر ہو جائیں جو مردہ قوم کی علامت ہوا کرتی ہیں تو اس وقت ضرورت ہوتی ہے کہ ساری طاقت تربیت اور تیاری کے محاذ پر لگائی جائے۔ افراد میں ازسرنو زندگی کی سپرٹ پیدا کرنا ہی اس وقت کرنے کا اصل کام بن جاتا ہے۔ دورِ عروج کا قومی پروگرام پیش قدمی ہوتا ہے اور دورِ زوال کا قومی پروگرام تیاری۔ دورِ عروج میں آگے بڑھنے کا نام عمل ہوتا ہے اور دور زوال میں پیچھے ہٹنے کا نام عمل۔ دور عروج میں قوم اپنے اختتام میں ہوتی ہے اور دور زوال میں وہ دوبارہ اپنے آغاز میں پہنچ جاتی ہے۔