حکیمانہ طریقہ
زندگی میں بار بار ایسا ہوتاہے کہ آدمی کو یہ فیصلہ لینا پڑتا ہے کہ وہ کیاکرے اورکیانہ کرے۔ ایسے مواقع پر فیصلہ لینے کی دو بنیادیں ہیں۔ ایک یہ کہ کیادرست ہے، دوسری یہ کہ کیا ممکن ہے:
1. What is right.
2. what is possible
حکیمانہ طریقہ یہ ہے کہ ذاتی معاملہ میں آدمی یہ دیکھے کہ کیا درست ہے۔ اور جو طریقہ درست ہو اس کو اختیار کر لے۔ مگر اجتماعی معاملہ کے لیے صحیح بات یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ ممکن کیا ہے، اور جو چیزممکن ہو اس کو اپنا لیا جائے۔ اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ ذاتی معاملہ میں سارا مسئلہ صرف اپنی ذات کا ہوتا ہے۔ آپ کو اپنی ذات پر پورا اختیار ہے۔ اپنی ذات کو آپ جس طرف چاہیں موڑیں اور اپنے ساتھ جو چاہیں سلوک کریں۔ اس لیے آپ کو اپنی ذات کے معاملہ میں معیار پسند ہونا چاہیے اور حتی الامکان وہی رویہ اختیار کرنا چاہیے جو مذہب اور اخلاق کی روسے مطلوب ہے۔
مگر اجتماعی معاملہ میں آپ کی ذات کے ساتھ ایک اور فریق شامل ہو جاتاہے۔ اس خارجی فریق پر آپ کو کوئی اختیار نہیں۔ آپ اس سے کہہ سکتے ہیں، مگر اس کو کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے۔ ایسی حالت میں عقل مندی کی بات یہ ہے کہ اجتماعی معاملہ میں ’’ممکن‘‘ کو دیکھاجائے۔ دو صورتوں میں سے جو صورت عملاً ممکن ہو اس پراپنے آپ کو راضی کر لیا جائے۔
ذاتی معاملہ میں ’’درست‘‘ پر چلنے سے زندگی کا سفر رکتا نہیں، وہ برابر جاری رہتاہے۔ مگر اجتماعی معاملہ میں ایسا کیاجائے تو فریق ثانی کی مخالفت فوراً آپ کے سفر کو روک دیتی ہے۔ اب سفر کو ملتوی کر کے ساری طاقت نزاع کے محاذ پر خرچ ہونے لگتی ہے۔ اس لیے مفید اورنتیجہ خیز طریقہ یہ ہے کہ فریق ثانی کے مطالبہ کی رعایت کرتے ہوئے عمل کی جو ممکن صورت مل رہی ہے، اس کو اختیار کر لیا جائے۔ حال کو مستقبل کے حوالہ کرتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھاجائے۔
یہی اس دنیا میں زندگی گزارنے کا حکیمانہ طریقہ ہے۔