شیر کا طریقہ

ٹائمس آف انڈیا(18 مارچ 1991ء) میں شیر کے بارے میں ایک رپورٹ چھپی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ شیر جنگل کی گھاس پر چلنا پسند نہیں کرتے۔ انہیں اندیشہ ہوتا ہے کہ کوئی کانٹا ان کے نرم پائوں میں نہ چبھ جائے۔ چنانچہ وہ ہمیشہ کھلے راستوں پر یا سڑکوں پر چلتے ہیں:

Tigers hate to walk on the jungle grass for the fear of a thorn piercing their soft feet. Thus they always walk on open paths and roads.

 شیر اور دوسرے تمام جانور فطرت کے مدرسہ کے تربیت یافتہ ہیں۔ وہ ہمیشہ اس طریقہ پر چلتے ہیں جو ان کے خالق نے براہ راست طور پرانہیں بتایا ہے۔ اس بنا پر یہ کہنا صحیح ہوگا کہ شیر کا مذکورہ طریقہ فطرت کا پسندیدہ طریقہ ہے۔ شیر کے لیے یہ احتیاطی طریقہ اس کی طینت میں رکھ دیا گیا ہے۔ اور انسان کے لیے شریعت کی زبان میں یہی بات ان لفظوں میں کہی گئی کہ خُذُوا حِذْرَكُمْ (4:71)۔ یعنی، اپنے بچائو کا انتظام رکھو۔

اللہ تعالیٰ نے جس خاص مصلحت کے تحت موجودہ دنیا کو بنایا ہے، اس کی بنا پر یہاں صاف ستھرے راستے بھی ہیں، اور کانٹے دار جھاڑیاں بھی۔ یہ کانٹے دار جھاڑیاں لازماً اس دنیا میں رہیں گی، ان کو ختم کرنا ممکن نہیں۔ اب یہاں جو کچھ کرنا ہے، وہ وہی ہے جو خدا کے سکھائے ہوئے طریقہ کے مطابق جنگل کا شیر کرتا ہے، یعنی کانٹے دار جھاڑیوں سے اپنے آپ کو بچایا جائے اور صاف اور کھلا ہوا راستہ تلاش کرکے اس پر اپنا سفر جاری کیا جائے۔

شیر جنگل کی گھاس سے اعراض کرتے ہوئے چلتا ہے، اسی طرح ہم کو انسانوں کے فتنہ سے اعراض کرتے ہوئے اپنا سفر حیات طے کرنا ہے۔ ہم کو چاہیے کہ ہم اپنے کسی عمل سے دوسروں کو غصہ نہ دلائیں۔ اور اگر دوسرے لوگ ہمارے اوپر غضب ناک ہو جائیں تو صبر کے ذریعہ ان کے غضب کو ٹھنڈا کریں۔ اور حکیمانہ تدبیر کے ذریعہ اپنے آپ کو ان کے غضب کا شکار ہونے سے بچائیں۔

’’جنگل کا بادشاہ‘‘ جو کچھ کرتا ہے وہ بزدلی نہیں ہے، بلکہ عین بہادری ہے۔ اسی طرح ایک انسان اپنے سماج میں یہی طریقہ اختیار کرے تو وہ بزدلی نہیں ہوگا بلکہ عین بہادری ہوگا۔ اعراض کا طریقہ شیر کا طریقہ ہے، نہ کہ گیڈر کا طریقہ۔  خداوند عالم کا ایک ہی قانون ہے، جو انسانوں سے بھی مطلوب ہے ،اور غیر انسانوں سے بھی۔ اور وہ ہے ناخوش گوار باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی زندگی کی تعمیر کرنا۔ گلاب کے پھولوں کا ایک باغ ہے۔ آپ اس میں داخل ہوتے ہیں۔ اس کی خوبصورت پتیاں اور اس کے خوشبودار پھول آپ کو متاثر کرتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ اس کے کانٹے آپ کو لگ جاتے ہیں۔ آپ کا ہاتھ زخمی ہو جاتا ہے یا آپ کے کپڑے کانٹوں میں پھنس جاتے ہیں۔

اب ایک صورت یہ ہے کہ گلاب کے باغ میں کانٹوں کی موجودگی کو آپ باغبان کا فعل قرار دیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آپ یہ جانیں کہ یہ کانٹے قدرت کے قانون کا نتیجہ ہیں۔ اگر آپ کانٹوں کی موجودگی کا سبب باغبان کو سمجھیں تو آپ کے اندر نفرت اور شکایت کا ذہن ابھرے گا، اور اگر آپ اس کو قانون قدرت کا نتیجہ سمجھیں تو آپ کانٹوں کی موجودگی کو بطور حقیقت تسلیم کرتے ہوئے یہ کوشش کریں گے کہ اس سے اعراض کرتے ہوئے اپنا مقصد حاصل کریں۔ ایک تشخیص سے احتجاج کا ذہن ابھرے گا اور دوسری تشخیص سے تدبیر تلاش کرنے کا۔

ہندوستان میں اکثریتی فرقہ کی طرف سے جو قابل شکایت باتیں پیش آتی ہیں، ان کو مسلمانوں کے تمام لکھنے اور بولنے والے انسان کا پیدا کردہ مسئلہ سمجھتے ہیں۔ اس لیے وہ احتجاج کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ مگر یہ سراسر عبث ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے گلاب کے کانٹوں کے خلاف شوروغل کیا جائے گا۔ گلاب کے درخت میں کانٹے بہرحال رہیں گے، اسی طرح انسانی سماج میں ایک سے دوسرے کو تلخ باتیں بھی ضرور پیش آئیں گی۔

ان تلخ اور قابل شکایت باتوں کا حل صرف ایک ہے۔ ان سے اعراض کرنا، ان کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے سفر حیات پر رواں دواں رہنا۔ اس قسم کے سماجی مسائل خود خدا کے تخلیقی منصوبہ کا حصہ ہیں، اس لیے وہ کبھی ختم نہیں ہو سکتے۔ البتہ ان کی موجودگی کو گوارا کرکے ہم اپنی زندگی کے سفر کو ضرور جاری رکھ سکتے ہیں۔

نادان آدمی ناموافق باتوں سے الجھتا ہے، دانش مند آدمی ناموافق باتوں سے دامن بچاتے ہوئے گزر جاتا ہے۔ یہی ایک لفظ میں، اس دنیا میں ناکامی اور کامیابی کا راز ہے۔ یہاں الجھنے کا انجام ناکامی ہے اور نظر انداز کرنے کا انجام کامیابی۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom