وقت کی اہمیت
لارڈ چسٹرفیلڈ(Lord Chesterfield)1694ء میں لندن میں پیدا ہوا۔ اور 1773ء میں وہیں اس کی وفات ہوئی۔ اس نے اپنے لڑکے فلپ اسٹین ہوپ کے نام بہت سے خطوط لکھے تھے۔ ان خطوط میں زندگی کی کامیابی کا ’’آرٹ‘‘ بتایا گیا تھا۔ یہ خطوط اس کے بعد چھاپ دیے گئے ہیں۔
ایک خط میں لارڈ چسٹر فیلڈ نے لکھا— میں نے تم سے کہا ہے کہ تم منٹوں کی حفاظت کرو، کیوں کہ گھنٹے اپنے آپ اپنی حفاظت کر لیں گے:
I recommended you to take care of the minutes, for the hours will take care of themselves.
اگر آپ اپنے منٹ کو ضائع نہ کریں تو گھنٹہ اپنے آپ ضائع ہونے سے بچ جائے گا۔ کیوں کہ منٹ منٹ کے ملنے ہی سے گھنٹہ بنتا ہے۔ جس آدمی نے جزء کا خیال رکھا، اس نے گویا کُل کا بھی خیال رکھا۔ کیوں کہ جب بہت سا جزء اکٹھا ہوتا ہے تو وہی کل بن جاتا ہے۔
بیشتر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ زیادہ کی فکر میں کم کو بھولے رہتے ہیں۔ وہ اپنے ذہن کو بہت کی طرف اتنا زیادہ لگاتے ہیں کہ تھوڑے کی طرف سے ان کی نگاہیں ہٹ جاتی ہیں۔ مگر آخری نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انہیں کچھ بھی نہیں ملتا۔ اپنے ملے ہوئے وقت کا ایک لمحہ بھی ضائع نہ کیجیے۔ لمحوں کو استعمال کرکے آپ مہینوں اور سالوں کے مالک بن سکتے ہیں۔ اگر آپ نے لمحوں کو کھویا تو اس کے بعد آپ مہینوں اور سالوں کو بھی یقینی طور پر کھودیں گے۔
اگر آپ روزانہ اپنے ایک گھنٹہ کا صرف پانچ منٹ کھوتے ہوں تو رات دن کے درمیان آپ نے روزانہ2 گھنٹہ کھو دیا۔ مہینہ میں60 گھنٹہ اور سال میں720 گھنٹے آپ کے ضائع ہوگئے۔ اسی طرح ہر آدمی اپنے ملے ہوئے وقت کا بہت سا حصہ بیکار ضائع کر دیتا ہے۔80 سال کی عمر پانے والا آدمی اپنی عمر کے 40 سال بھی پوری طرح استعمال نہیں کر پاتا۔
وقت آپ کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ وقت کو ضائع ہونے سے بچایئے۔
ہر بڑی کامیابی چھوٹی کامیابی کے مجموعہ کا نام ہے۔ چھوٹی کامیابی پر راضی ہو جایئے۔ اس کے بعد آپ بڑی کامیابی بھی ضرور حاصل کر لیں گے۔
مولوی لطف اللہ ایک معمولی ٹیوٹر تھے۔ وہ1802ء میں مالوہ کے قدیم شہر دھارا نگر میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے کسی انگریزی درس گاہ میں ایک دن بھی نہیں پڑھا۔ مگر ان کی خود نوشت انگریزی سوانح عمری1857ء میں لندن سے چھپی۔ لندن کے پبلشر اسمتھ ایلڈرا اینڈ کمپنی نے اس کانام یہ رکھا:
Autobiography of Lutfullah: A Mohammedan Gentleman
اس کتاب کے ساتھ ایک انگریز مسٹر ایسٹ ویک کا دیباچہ شامل ہے۔ انہوں نے دیباچہ میں مصنف کی صحیح انگریزی کی تعریف کی ہے۔ انہوں نے اس پر تعجب کا اظہار کیا ہے کہ ایک ہندوستانی نے بدیسی زبان میں اتنی ضخیم کتاب کس طرح لکھی۔ مولوی لطف اللہ نے یہ صلاحیت کیسے پیدا کی کہ وہ انگریزی میں ایک ایسی کتاب لکھیں جو لندن سے چھپے اور انگریز ادیب اس کی زبان کی تعریف کرے، اس کا راز اردو کے اس مشہور مقولہ میں چھپا ہوا ہے تھوڑا تھوڑا بہت ہو جاتا ہے۔
مولوی لطف اللہ نے انگریزی زبان صرف اپنی محنت سے سیکھی۔ وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریز ملازموں کو ہندوستانی، فارسی اور مرہٹی زبانیں سکھاتے تھے۔ ان کے انگریز شاگردوں کی تعداد سو سے اوپر تھی۔ انگریزوں سے تعلق کے نتیجہ میں ان کے اندر انگریزی زبان سیکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ انہوں نے ذاتی مطالعہ سے انگریزی زبان پڑھنا شروع کیا۔ اور آٹھ سال کی لگاتار محنت کے نتیجہ میں اس پر پوری طرح قدرت حاصل کر لی۔ انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اس آٹھ سال کی مدت میں’’کوئی ایک رات ایسی نہیں گزری جب کہ سونے سے پہلے میں نے انگریزی کے دس لفظ یاد نہ کیے ہوں اور ڈاکٹر گل کِرسٹ کی قواعد کی کتابوں کے چند صفحے توجہ سے پڑھ کر ذہن میں محفوظ نہ کیے ہوں۔‘‘’’دس لفظ‘‘ بظاہر بہت کم معلوم ہوتے ہیں۔ مگر دس لفظ روزانہ کی رفتار کو جب آٹھ سال تک پھیلا دیا جائے تو وہ ایک شخص کو غیر زبان کا ایسا ادیب بنا دیتے ہیں کہ اہل زبان بھی اس کی زبان دانی کا اعتراف کریں۔