احساسِ اصلاح
ایک مسلم نوجوان سے ملاقات ہوئی۔ وہ کتابت کا کام کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں الرسالہ پابندی کے ساتھ پڑھتا ہوں۔ مجھ کو الرسالہ بہت پسند ہے۔ مگر آپ کی ایک بات مجھے کھٹکتی ہے۔ آپ اکثر مسلمانوں کی کمیوں کا ذکر کرتے ہیں اس سے تو مسلمانوں میں احساس کمتری پیدا ہو جائے گا۔
میں نے کہاکہ آپ ایک کاتب ہیں۔ فرض کیجیے کہ آپ حرف ’ج‘ اور ’ع‘ کا دائرہ صحیح نہ بناتے ہوں۔ اب اگر آپ کے استاد آپ کی اس کمی کو بتائیں تو کیا آپ کہیں گے کہ استاد صاحب میرے اندر احساس کمتری پیدا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ میں نے کہا کہ اسی ذاتی مثال سے آپ الرسالہ کے اُن مضامین کو سمجھ سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان مضامین کا مقصد مسلمانوں میں احساس کمتری پیدا کرنا نہیں ہے، بلکہ احساسِ اصلاح پیدا کرنا ہے اور یہ ایک معلوم بات ہے کہ اپنی کمیوں کی اصلاح کیے بغیر کوئی شخص یا گروہ اس دنیا میں ترقی نہیں کر سکتا۔
عربی کا ایک مثل ہے کہ جو شخص تم کو نصیحت کرے وہ اس سے بہتر ہے جو تمہاری تعریف کرے (من ھو ناصحک خیر لک ممن ھو مادحک) ۔یہ مثل صد فیصد درست ہے۔ ہر وہ شخص جو کسی کے ساتھ خیر خواہی رکھتا ہو، وہ یہی کرے گا کہ وہ اس کی کمیوں کی نشاندہی کرے گا اور اس کی کوتاہیوں پر اس کی فہمائش کرے گا۔ یہی سچے مصلح کا طریقہ ہے۔
قرآن میں گھاٹے (خُسر) سے بچنے کے لیے جو لازمی صفات بتائی گئی ہیں، ان میں سے ایک ضروری صفت تواصی الحق اور تواصی بالصبر ہے۔ یعنی آپس میں ایک دوسرے کو حق و صبر کی نصیحت کرتے رہنا۔ وہی گروہ اس دنیا میں نقصان اوربربادی سے بچ سکتا ہے جس کے افراد میں یہ روح زندہ ہو کہ جب وہ اپنے بھائی کو حق کے راستہ سے ہٹا ہوا پائے تو فوراً اس کو ٹوکے، اور جب بھی وہ اس کو بے صبری کی طرف جاتا ہوا دیکھے تو اس کو صبر کی اہمیت سے آگاہ کرے (سورہ العصر) ۔
صحابۂ کرام کے اندر نصیحت کرنے کا جذبہ بھی پوری طرح موجود تھا اور نصیحت سننے کا بھی۔ حضرت عمر فاروقؓ نے ایک معاملہ میں ایک بار فیصلہ دیا۔ حضرت علی کو اس فیصلہ میں غلطی نظر آئی۔ انہوں نے اس پر ٹوکا۔ حضرت عمرؓ اگرچہ خلیفہ اور حاکم تھے، انہوں نے فوراً اس کو مان لیا اور کہا: اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا(لولا عليّ لهلك عمر) الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، جلد3، صفحہ1103۔