مقصدیت
دہلی میں ایک مسلم نوجوان تھا۔ وہ غریب گھر میں پیدا ہوا۔ اس کی باقاعدہ تعلیم بھی نہ ہو سکی، تاہم وہ تندرست اور باصلاحیت تھا۔ جب وہ بڑا ہوا تو اس کو محسوس ہواکہ ماحول میں اس کے لیے کوئی باعزت کام یہیں ہے۔ آخر کار وہ داداگیری کی راہ پر لگ گیا۔ جھگڑا فساد اور لوٹ مار اس کا پیشہ بن گیا۔ لوگ اس کو دادا کہنے لگے۔
چند سالوں کے بعد ایک شخص کو اس سے ہمدردی ہوئی۔ اس نے اپنے پاس سے کچھ رقم بطور قرض دے کر اس کو دکانداری کرا دی۔ جب وہ دکان میں بیٹھا اور اس کو نفع ملنے لگا تو اس کی تمام دلچسپیاں دکان کی طرف مائل ہو گئیں۔اس نے داداگیری چھوڑ دی اور پوری طرح دکان کے کام میںمصروف ہو گیا۔ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کامعاملہ بھی ایسا ہی کچھ ہو رہا ہے۔ انہوں نے مقصدیت کھو دی ہے۔ جدید دنیا میں وہ ایک بے مقصد گروہ بن کر رہ گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے پاس آج منفی باتوں کے سوا اور کچھ نہیں۔ وہ شکایت اور احتجاج کا مجسمہ بن گئے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوںپروہ لڑنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ ان کی ہر نشست مجلس شکایت ہوتی ہے اور ان کا ہر جلسہ یوم احتجاج۔ اس صورت حال کا واحد حل یہ ہے کہ مسلمانوں کو ایک بامقصد گروہ بنایا جائے اور یہ مقصد صرف ایک ہی ہو سکتا ہے اور وہ دعوت ہے۔ مسلمانوں کے اندر اگر داعیانہ مقصد پیدا کر دیا جائے تو ان کی تمام کمزوریاں اپنے آپ دور ہو جائیں گی۔
وہ اپنے کرنے کا ایک اعلیٰ اور مثبت کام پا لیں گے۔ ان کی بے مقصدیت اپنے آپ مقصدیت میں تبدیل ہو جائے گی۔ اس کے بعد ان کے اندر کردار بھی آئے گا اور صبر و برداشت بھی۔ وہ دوسروں سے نفرت کرنے کے بجائے محبت کرنے لگیں گے۔ اس کے بعد ان کو وہ نظر حاصل ہو جائے گی جو تاریکی میں روشنی کا پہلو دیکھ لیتی ہے۔ جو کھونے میں پانے کا راز دریافت کر لیتی ہے۔
مقصدیت ہر قسم کی اصلاح کی جڑ ہے۔ بے مقصد آدمی کا دماغ شیطان کا کارخانہ ہوتا ہے۔ آدمی کو بامقصد بنا دیجیے اور اس کے بعد اپنے آپ اس کی ہرچیز درست ہو جائے گی۔