ديباچه
انسان کے سوا جو کائنات ہے وہ نہایت محکم قوانین پر چل رہی ہے۔ کائنات کی ہرچیز کا ایک مقرر ضابطہ ہے۔ وہ ہمیشہ اسی ضابطہ کی پیروی کرتی ہے۔ ہر چیز اس ضابطہ پرعمل کرتے ہوئے اپنی تکمیل کے مرحلہ تک پہنچتی ہے۔
اسی طرح انسانی زندگی کے لیے بھی قدرت کا ایک مقرر کیا ہوا ضابطہ ہے۔ جو آدمی اس ضابطہ کی پیروی کرتا ہے وہ اس دنیا میںکامیاب ہوتا ہے۔ جو آدمی اس مقرر ضابطہ سے انحراف کرتاہے وہ یہاں ناکام و نامراد ہو کر رہ جاتا ہے۔
اس ضابطہ کی بنیادی دفعہ یہ ہے کہ انسانی دنیا کے نظام کو مقابلہ اور مسابقت کے اصول پرقائم کیا گیا ہے۔ یہاں ہر آدمی کو دوسرے آدمی کا لحاظ کرنا ہے۔ یہاں ہر آدمی کو دوسرے آدمیوں سے مقابلہ کرکے اپنا ضروری حق وصول کرنا ہے۔
اس اصول کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں جب بھی کسی شخص یا قوم کو کچھ ملتا ہے تو وہ اپنی صلاحیت کی بنا پر ملتا ہے اور اگر کسی سے کچھ چھنتا ہے تو اپنی کوتاہی کی بنا پر چھنتا ہے۔ اس لیے یہاں زندگی کی دوڑ میں اگر کوئی طبقہ محروم رہ جائے تو اس کو چاہیے کہ وہ دوسروں کی شکایت کرنے کے بجائے خود اپنے اندر اس سبب کو تلاش کرے جس نے اسے محرومی میں ڈال دیا۔
زیرِ نظر مجموعہ مختلف پہلوئوں سے اسی اصولِ فطرت کی تشریح ہے۔ اس کی ترتیب سادہ طور پر کمیت کے قاعدہ پر کی گئی ہے۔ پہلے ایک صفحہ والے مضامین، اس کے بعد دو صفحہ والے مضامین۔ اس کے بعد کئی صفحہ والے مضامین۔ اسی نسبت سے اس کو حسب ذیل تین ابواب پر تقسیم کیا گیا ہے— صفحاتِ حکمت، اوراقِ حکمت ، مضامینِ حکمت۔
وحید الدین
19 مارچ 1992ء