قدرت کی تعلیم
ٹیک (teak) ایک عمارتی لکڑی ہے۔ ٹیک کا سب سے بڑا پیداواری ملک برما ہے۔ اس کے بعد ہندوستان، تھائی لینڈ، انڈونیشیا اور سری لنکا میں ٹیک کی پیداوار ہوتی ہے۔ ہندوستان میں تقریباً دو ہزار سال سے اس کا استعمال کیا جا رہا ہے۔
ٹیک کی سب سے اہم صفت، ایک ماہر کے الفاظ میں، اس کی غیر معمولی طویل عمر (extra ordinary durability) ہے۔ ہزار سال پرانی عمارتوں میں بھی ٹیک کی لکڑی کے بیم اچھی حالت میں پائے گئے ہیں۔ قدیم زمانہ میں کشتی اور پل وغیرہ اکثر اسی لکڑی کے بنائے جاتے تھے۔
ٹیک کی لکڑی کے دیرپا ہونے کا خاص سبب یہ ہے کہ عام لکڑیوں کی طرح، اس میں دیمک نہیں لگتا۔ دیمک لکڑی کا دشمن ہے، دیمک لگنے کے بعد کوئی لکڑی دیر تک صحیح حالت میں باقی نہیں رہتی۔ مگر ٹیک کے لیے دیمک کا خطرہ نہیں، اس لیے اس کی دیرپائی کو کوئی چیلنج کرنے والا بھی نہیں۔
ٹیک کی وہ کون سی صفت ہے جس کی بنا پر وہ دیمک کے خطرہ سے محفوظ رہتی ہے۔ اس کی وجہ بالکل سادہ ہے۔ ٹیک کی لکڑی میں ایک قسم کا کڑوا ذائقہ ہوتا ہے۔ یہ ذائقہ دیمک کو پسندنہیں لکڑی ہی دیمک کی خوراک ہے۔ مگر ٹیک کی لکڑی استثنائی طور پر دیمک کے ذائقہ کے مطابق نہیں، اس لیے دیمک اس کو اپنی خوراک بھی نہیں بناتا۔ اس مثال سے قدرت کا طریقہ معلوم ہوتا ہے۔ قدرت نے یہ چاہا کہ وہ ٹیک کو دیمک سے بچائے۔ اس مقصد کے لیے اس نے ٹیک کو شور و غل اور احتجاج کا طریقہ نہیں سکھایا۔ قدرت نے سادہ طور پر یہ کیا کہ خود ٹیک کے اندر ایک ایسی صفت پیدا کر دی جس کے نتیجہ میں دیمک اپنے آپ اس سے دور ہو جائے۔
اس دنیا میں جس طرح لکڑی کا دشمن دیمک ہے۔ اسی طرح یہاں ا نسانوں میں بھی ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ اب انسان ان سے بچنے کے لیے کیا کرے۔ اس کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے اندر ایسی صفت پیدا کر لے کہ اس کا دشمن اپنے آپ ہی اس سے دور رہے۔ وہ اس کے خلاف کارروائی کرنے سے خودبخود رک جائے۔