خون کے بجائے پانی
محمد افضل لادی والا(35 سال) بمبئی کے رہنے والے ہیں۔24 فروری1991ء کی ملاقات میں انہوں نے اپنا ایک واقعہ بتایا۔22 جنوری1991 کو رنگ بھون(دھوبی تلائو) میں ایک کلچرل پروگرام تھا۔ افضل صاحب نے اس میں شرکت کی۔ ساڑھے گیارہ بجے رات کو یہ پروگرام ختم ہوا۔ اس سے فارغ ہو کر وہ بمبئی وی ٹی پر آئے اور ٹرین کے ذریعہ کرلا پہنچے۔ اس وقت تقریباً ساڑھے بارے بجے کا وقت ہو چکا تھا۔ اسٹیشن سے رہائش گاہ(ہلائو پل) تک تقریباً دو کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔ انہوں نے چاہا کہ تھری وھیلر کے ذریعہ گھر کے لیے روانہ ہوں۔ تھری وھیلر کے انتظار میں وہ سڑک پر کھڑے ہوگئے۔ اتنے میں ایک تھری وھیلر آتا ہوا دکھائی دیا۔ اس وقت ان کے منہ میں پان تھا۔ تھری وھیلر کو آواز دینے کے لیے انہوں نے جلدی میں پان کو تھوکا۔ اتفاق سے عین اسی وقت ایک مسافر سائڈ میں آگیا اور افضل صاحب کا پان پورا کا پورا اس کے پائوں پر جاگرا۔
مسافر فوراً آگ بگولا ہوگیا۔ طیش میں آ کر اس نے کہا کہ پان کھاتے ہو اور پان کھانے کی تمیز بھی نہیں۔ مگر افضل صاحب، جو الرسالہ کے مستقل قاری ہیں، انہوں نے گرم الفاظ کا جواب ٹھنڈے الفاظ سے دیا۔ انہوں نے کہاکہ میں اپنی غلطی کا اقرار کرتا ہوں۔ پان کھانا بھی غلط، اور پان کھا کر میں نے جو کچھ کیا وہ بھی غلط۔ وہ آدمی تیز ہوتا گیا۔ مگر افضل صاحب نے اس کی اشتعال انگیز باتوں کا جواب دینے کے بجائے کہا کہ مجھے معاف کیجیے۔ اس نے کہا کہ یہ اچھا ہے کہ کسی کے ساتھ کچھ بھی کر دو، اس کے بعد کہو کہ معاف کر دو۔
افضل صاحب نے کہا کہ بھائی میں رسمی معافی نہیں مانگ رہا ہوں۔ میں دل سے معافی مانگ رہا ہوں۔ اب آپ مجھے اجازت دیجیے کہ میں آ پ کے پائوں دھوئوں۔ افضل صاحب نے جب پائوں دھونے کی بات کہی تو آدمی کچھ نرم پڑا۔ کچھ اور باتوں کے بعد آخر کار وہ راضی ہوا کہ افضل صاحب اس کا پائوں دھو دیں۔ قریب ہی ایک چائے وغیرہ کا ہوٹل تھا۔ افضل صاحب فوراً اس کے پاس گئے اور کہا کہ’’چچا، ایک گلاس پانی دینا‘‘ افضل صاحب گلاس لے کر آئے تو آدمی بالکل ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ اس نے کہا کہ مجھ کو دیجیے، میں خود اپنے ہاتھ سے دھو لیتا ہوں۔
آدمی نے اپنے ہاتھ میں گلاس لے کر دھویا۔ ایک گلاس سے پوری صفائی نہیں ہوئی تو افضل صاحب دوڑ کر گئے اور ایک گلاس مزید پانی لے آئے۔ یہاں تک کہ اس کا پائوں پوری طرح صاف ہوگیا۔ یہ واقعہ ریلوے اسٹیشن کے باہر پیش آیا۔ گفتگو کے دوران افضل صاحب نے اس آدمی سے کہا: بھائی صاحب، آپ تو’’میم‘‘ہیں، اگر آپ’’کاف‘‘ ہوتے تب بھی مجھے یہی کرنا تھا۔ کیوں کہ اسلام نے ہم کو ایسا ہی حکم دیا ہے۔ یہ سن کر وہ آدمی افضل صاحب سے لپٹ گیا۔ اس نے کہا کہ بھائی صاحب، میں کاف ہی ہوں۔ اور آپ جیسا مسلمان مجھے اپنی زندگی میں پہلی بار ملا ہے۔ اور اگر دوسرے مسلمان بھی آپ جیسے ہو جائیں تو سارا جھگڑا ختم ہو جائے۔
اب وہ آدمی بالکل بدل گیا۔ پہلے اس کے اندر غصہ اور انتقام بھڑک اٹھا تھا۔ اب وہ شرمندہ ہو کر افضل صاحب سے کہنے لگا کہ بھائی مجھ کو معاف کرنا۔ آپ کو میں نے بڑی تکلیف دی۔ میری وجہ سے آپ کو پانی لانا پڑا۔ آپ کا تھری وھیلر بھی چھوٹ گیا۔ افضل صاحب نے کہا کہ مجھ کو شرمندہ نہ کیجیے۔ اس معاملہ میں اصل غلطی تو میری تھی، اور میں جو پانی لایا، وہ میرا فرض تھا جو میں نے کیا۔ واقعہ کے شروع میں جو آدمی دوسرے کو غلط بتا رہا تھا۔ واقعہ کے آخر میں وہ خود اپنی غلطی مان کر شرمندہ ہوگیا اور معافی مانگنے لگا۔ جب یہ واقعہ پیش آیا، اس وقت بمبئی کے علاقہ جوگیشوری میں زبردست فرقہ وارانہ کشیدگی موجود تھی۔ یہ مقام کُرلا سے تقریباً15 کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے۔ ان حالات میں اگر افضل صاحب اشتعال کے جواب میں اشتعال کا انداز اختیار کرتے تو وہی ہوتا جو اس طرح کے مواقع پر دوسری بہت سی جگہوں میں ہو چکا ہے۔ یعنی فرقہ وارانہ فساد اور جان و مال کی تباہی۔ اس کے بعد شاید ایسا ہوتا کہ افضل صاحب خدانخواستہ گھر پہنچنے کے بجائے ہسپتال لے جائے جاتے اور علاقہ میں ہندو مسلم فساد برپا ہو کر سیکڑوں خاندانوں کو برباد کر دیتا۔
افضل صاحب نے یہ واقعہ بتانے کے بعد کہا: اس وقت مجھے الرسالہ کی بات یاد آئی۔ یہ الرسالہ کے دیے ہوئے ذہن کا نتیجہ تھا کہ میں اشتعال کے موقع پر مشتعل ہونے سے بچ گیا، اور نتیجۃً اس کے برے انجام سے بھی۔ میرے گلاس بھر پانی نے سینکڑوں لوگوں کو اس بھیانک انجام سے بچا لیا کہ ان کا خون سڑکوں پر بہایا جائے۔ ایک قسم کے الفاظ بول کر آپ آدمی کے ذہن کو غصہ کا تنور بنا سکتے ہیں۔ اور دوسرے قسم کے الفاظ بول کر آدمی کے بھڑکتے ہوئے غصہ کو ٹھنڈا کر سکتے ہیں۔ الفاظ آگ کا کام بھی کرتے ہیں اور برف کا کام بھی۔ یہ بولنے والے کے اپنے اوپر ہے کہ وہ دونوں میں سے کس چیز کا اپنے لیے انتخاب کرتا ہے۔