اس میں سبق ہے
مولانا اکرام الدین قاسمی(پیدائش1938)ڈمراواں(ضلع بھاگل پور) کے رہنے والے۔ 7 فروری1990ء کی ملاقات میں انہوں نے اپنے کچھ واقعات بتائے جن میں بہت بڑا سبق ہے۔
1966ء کا واقعہ ہے۔ مولانا اکرام الدین صاحب نے گنگا کو اسٹیمر سے پار کیا۔ وہ براری ریلوے اسٹیشن پر بھاگل پور جانے والی پسنجر ٹرین پر سوار ہوگئے۔ ٹرین میں بھیڑ تھی۔ ایک جگہ سیٹ پر ڈالڈہ کا ڈبہ رکھا ہوا تھا۔ وہ ڈبہ کو کھسکا کر وہاں بیٹھ گئے۔
تھوڑی دیر کے بعد ایک ہندو نوجوان آیا یہ ڈبہ اسی کا تھا۔ وہ اس کو سیٹ پر رکھ کر باہر چلا گیا تھا جب اس کو اندازہ ہوا کہ ڈبہ اپنی جگہ سے ہٹایا گیا ہے تو اس نے پوچھا کہ اس کو کس نے ہٹایا ہے۔ مولانا اکرام الدین صاحب نے کہا کہ میں نے ہٹایا ہے یہ سنتے ہی وہ سخت غصہ ہوگیا۔ کیونکہ اس کے عقیدہ کے مطابق ایک مسلمان نے اس کو چھو کر اس کو گندہ کر دیا تھا۔ اس نے کہا کہ اس ڈبہ میں گنگا جل تھا۔ اس کو لے کر میں دیو گھر جا رہا تھا۔ اس کو تم نے اپوتر (ناپاک)کر دیا۔ اب وہ لے جانے کے قابل نہیں رہا۔وہ غصہ میں آپے سے باہر تھا۔ اور نہایت گرم اور اشتعال انگیز لہجہ میں بار بار کہہ رہا تھا کہ تم نے میرے گنگا جل کو اپوتر کر دیا۔ مولانا اکرام الدین صاحب نے ان باتوں کا کوئی اثرنہیں لیا۔ وہ خاموشی سے اٹھ کر کھڑے ہوگئے اور سیٹ نوجوان کے لیے خالی کر دی۔ انہوں نے کہا میں نہیں جانتا تھا کہ اس ڈبہ میں گنگا جل ہے اور وہ میرے چھونے سے اپوتر ہو جائے گا۔ مجھ سے غلطی ہوگئی، مجھے معاف کر دو۔
ہندو نوجوان ان کے خلاف برستا رہا اور وہ خاموشی سے کسی ردعمل کے بغیر اس کو سنتے رہے۔ یہ منظر دیکھ کر ڈبہ کے تمام ہندو اس نوجوان کے خلاف ہوگئے اور مولانا اکرام الدین صاحب کی حمایت کرنے لگے۔ انہوں نے نوجوان سے کہا کہ مولانا جب چپ ہیں اور اپنی غلطی مان رہے ہیں تو تم کیوں ان کے خلاف اتنا زیادہ چیخ رہے ہو۔ انہوں نے مولانا اکرام الدین صاحب سے کہا کہ آپ بالکل مطمئن رہیے۔ یہ آپ کا کچھ نہیں کر سکتا۔
آخر کار ہندو نوجوان چپ ہوگیا۔ مولانا اکرام الدین صاحب اپنی جگہ برابر کھڑے رہے۔ کچھ دیر کے بعد نوجوان نے بے رخی کے ساتھ مولانا اکرام الدین صاحب سے پوچھا کہ آپ کہاں سے آرہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کھڑک بازار سے (اس وقت مولانا اسی مقام پر رہتے تھے) نوجوان نے کہاکہ کھڑک بازار میں ایک مولانا اکرام الدین ہیں، کیا آپ ان کو جانتے ہیں۔ وہ بہت اچھے آدمی ہیں۔ میری ماں ان کے پاس گئی تھی اور ان سے تعویذ لائی تھی۔ اس تعویذ سے بہت فائدہ ہوا۔ میں ان سے ملنا چاہتا ہوں۔
مولانا اکرام الدین صاحب نے مسکراتے ہوئے کہاکہ ابھی تو وہ سفر میں ہیں۔ کل تک وہ وہاں پہنچ جائیں گے۔ اس وقت ان سے ملاقات ہو سکتی ہے۔ ہندو نوجوان نے پوچھا کہ آپ کو کیسے معلوم کہ وہ سفر میں ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ جس مسافر سے تم بات کر رہے ہو وہی مولانا اکرام الدین ہیں۔
یہ سنتے ہی ہندو نوجوان نے مولانا اکرام الدین کے پائوں پکڑ لیے۔ اس نے کہا کہ مجھے چھما کر دیے۔ مجھ سے بہت بھاری غلطی ہوگئی۔ اس غلطی پر جی چاہتا ہے کہ میں اپنے آپ کو مار لوں۔ وہ نوجوان اپنی سیٹ سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا اور اصرار کرکے مولانا اکرام الدین صاحب کو اپنی جگہ بٹھا دیا۔ اس کے بعد وہ آخری اسٹیشن تک برابر کھڑا رہا۔ اگلے اسٹیشن پر جب دونوں اترے تو نوجوان نے اصرار کرکے مولانا کو ناشتہ کرایا۔ مولانا اکرام الدین صاحب نے اس طرح کے اور کئی واقعات سنائے اور کہاکہ ہندوئوں میں ہم نے جو اخلاق پایا وہ اخلاق ہم نے موجودہ مسلمانوں میں نہیں پایا۔
اسی طرح انہوں نے بتایا کہ 1982ء میں میں تراویح سنانے کے لیے بنگلور گیا ہوا تھا۔ ایک روز میں ہگنور سے کورم ہلّی بذریعہ اسکوٹر جا رہا تھا۔ راستہ میں میرے اسکوٹر کا پٹرول ختم ہوگیا۔ کچھ دور تک میں اسکوٹر کو دھکیل کر لے گیا۔ پھر سڑک کے کنارے ناریل کا ایک باغ دکھائی دیا۔ اس کے اندر ایک کار کھڑی ہوئی تھی۔ میں باغ کے اندر گیا۔ وہاں ایک ہندو بیٹھا ہوا تھا۔ مجھ کو دیکھتے ہی اس نے اپنے آدمی سے کہا کہ ایک کرسی لے آئو۔ مجھ کو کرسی پر بٹھا کر پوچھا کہ حضرت کیا کام ہے۔ میں نے کہا کہ میری گاڑی میں پٹرول ختم ہوگیا ہے۔ یہاں سے آٹھ کلو میٹر دور جانے پر مجھے پٹرول مل سکے گا۔ میں کار دیکھ کر یہاں آگیا کہ شاید یہاں سے مجھے پٹرول مل جائے۔
مذکورہ ہندو نے فوراً اپنے ڈرائیور سے کہا کہ دیکھو اگر باہر پٹرول ہو تو اس کو حضرت کی گاڑی میں ڈال دو اور اگر باہر نہ ہو تو اپنی گاڑی میں سے نکال کر ان کو پٹرول دے دو۔ پٹرول لینے کے بعد میں نے اپنی جیب سے بیس روپیہ کا نوٹ نکالا تاکہ پٹرول کی قیمت ادا کروں۔ اب ہندو فوراً ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوگیا۔ اس نے کہا کہ ہم کو معاف کیجیے۔ پیسہ کی ضرورت نہیں۔ ہم کو بس آپ کی دعا چاہیے۔
انسان کو غصہ نہ کیجیے اور اگر کسی وجہ سے وہ غصہ ہو جائے تو جوابی غصہ نہ کرکے اس کو ٹھنڈا کر دیجیے۔ اس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ جس کو آپ اپنا دشمن سمجھ رہے تھے، وہ وہ آپ کے لیے ایسا ہوگیا ہے جیسے کہ وہ آپ کا قریبی دوست ہو۔
ہر آدمی خدا کا بنایا ہوا ہے۔ اس دنیا میں کوئی آدمی نہیں جس کو خدا کے علاوہ کسی اور نے پیدا کیا ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر آدمی کے اندر وہی فطرت ہے جو کسی دوسرے کے اندر ہے۔ ہر آدمی کے اندر اچھے اور برے کی وہی تمیز موجود ہے جو کسی دوسرے کے اندر پائی جاتی ہے۔
تاہم اسی کے ساتھ ہر آدمی کے اندر انا(ego) بھی موجود ہے۔ یہی ’’انا‘‘ ساری خرابیاں پیدا کرتا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت خاص سے ہر آدمی کی انانیت کو اس کے سینہ کے اندر سلا رکھا ہے۔ ہر آدمی کی انا ابتدائی طور پر حالت خواب میں ہے۔ آپ کی عقل مندی یہ ہے کہ آدمی کی اس انا کو سویا رہنے دیں، اس کو کبھی بیدار نہ کریں۔
جب آدمی کی انا سو رہی ہو تو وہ اپنی حالت فطری پر ہوتا ہے۔ اس وقت وہ وہی کرتا ہے جو سچی انسانیت کا تقاضا ہے۔ کوئی آدمی صرف اس وقت برا بنتا ہے جب کہ اس کی انانیت کو جگا دیا جائے۔ عقل مند آدمی کو چاہیے کہ وہ دوسروں کی انا کو جگانے سے آخری حد تک پرہیز کرے، اور بالفرض اگر کسی کی انا جاگ اٹھے تو پہلی فرصت میں اپنے حکیمانہ رویہ سے اس آگ کو بجھا دے۔
جو لوگ عقل مندی کی اس روش کو اختیار کرلیں، ان کو کبھی دوسروں کی طرف سے شکایت نہ ہوگی، خواہ وہ ایک ملک میں رہتے ہوں یا کسی دوسرے ملک میں۔