سبب کیا ہے
بارسلونا (اسپین) میں جولائی۔ اگست 1992ء کے درمیان اولمپکس کے مقابلے ہوئے۔ اس میں 171 ملکوں نے حصہ لیا۔ ان میں سے 64 ملکوں نے مختلف کھیلوں میں اعلیٰ کارکردگی دکھا کر تمغے حاصل کیے۔
ہندوستان جو 86 کروڑ افراد کا ملک ہے وہ ایک بھی تمغہ حاصل نہ کر سکا۔ نہ گولڈ میں نہ سلور میں نہ برانز میں۔ حتیٰ کہ تیراندازی جو بھارت کی روایات میں شامل ہے اس میں بھی دوسرے ملکوں کے لوگ آگے نکل گئے۔ 64 جیتنے والے ملکوں کی فہرست میں ابتدائی دس ملکوں کے نام بالترتیب یہ ہیں— سی آئی ایس ، امریکہ، جرمنی ، چین، اسپین، ہنگری، سائوتھ کوریا، کیوبا، فرانس، آسٹریلیا۔
یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ہے۔ جو لوگ بیرونی دنیا کا سفر کرتے ہیں یا جن کی عالمی حالات پر نظر ہے، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر آج ہندوستان کی کوئی اہمیت نہیں۔مثلاً بڑے صنعتی ممالک کی فہرست میں ہندوستان کانام آخری سطروں میں بھی نہیں ملتا۔ جدید سائنسی ریسرچ میں ہندوستان سرے سے قابل تذکرہ نہیں سمجھا جاتا۔ ہندوستان کے تعلیمی ادارے اپنے معیار کے اعتبار سے سب سے کمتر ادارے کی حیثیت رکھتے ہیں، وغیرہ۔
اس پچھڑے پن کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب وہی ہے جس کی طرف ایک مبصرنے ان الفاظ میں اشارہ کیا— لوگوں کے دماغ ناقابل لحاظ چیزوں میںکھوئے ہوئے ہیں۔ وہ وقت کے اصل قابل لحاظ مسائل کی طرف متوجہ نہیں:
Men's minds are lost in trivialities, and not attune to the challenging issues of the time.
خواہ فردکامعاملہ ہو یا قوم کامعاملہ، اس دنیامیں اعلیٰ ترقی کا صرف ایک ہی راز ہے اوروہ یہ کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظرانداز کیا جائے، اور صرف ان باتوں پر سارا دھیان لگایا جائے جو مستقبل کوبنانے یا بگاڑنے میں حقیقی طور پر موثر ہوتی ہیں۔ ہندوستان کے لوگ اس فرق کو نہیں جانتے۔ اسی لیے نصف صدی کے ہنگاموں کے باوجود وہ کوئی قابل ذکر ترقی نہ کر سکے۔