امید کا پیغام
قرآن میں بعض انسانی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس طرح کی ناموافق صورت پیش آئے تو صبر اور توکل کا انداز اختیار کرو۔ اللہ تمہارا نگہبان ہے، وہ تمہارے لیے مشکل کے بعد آسانی پیدا کر دے گا(سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا )65:7۔
جس طرح ہماری زمین مسلسل گردش کر رہی ہے، اسی طرح انسان کے حالات بھی برابر بدلتے رہتے ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ کسی بھی حال میں مایوس نہ ہو، وہ ہمیشہ ناامیدی پر امید کے پہلو کو غالب رکھے۔ حال کی بنیاد پر وہ کبھی مستقبل کے بارے میں اپنے یقین کو نہ کھوئے۔
رات کے آنے کو اگر’’آج‘‘ کے لحاظ سے دیکھا جائے تو وہ اندھیرے کا آنا معلوم ہوگا، مگر’’کل‘‘ کے لحاظ سے دیکھیے تو وہ روشن صبح کے آنے کی تمہید بن جاتا ہے۔ خزاں کا موسم بظاہر پت جھڑ کا موسم دکھائی دیتا ہے۔ مگر مستقبل کی نظر سے دیکھیے تو وہ بہار کے سرسبزوشاداب موسم کی خبر دینے لگے گا۔
یہ قدرت کا اٹل قانون ہے۔ یہ قانون عام مادی دنیا کے لیے بھی ہے، اور اسی طرح انسانوں کی زندہ دنیا کے لیے بھی۔ اس میں کبھی کوئی تبدیلی ہونے والی نہیں۔ جب دنیا کی تخلیق اس ڈھنگ پر ہوئی ہے تو کوئی انسان اس دنیا میں مایوس کیوں ہو۔ جب یہاں ہر تاریکی آخر کار روشنی بننے والی ہے تو وقتی حالات سے گھبرانے کی کیا ضرورت۔ آدمی اگر یہاں کسی مشکل میں پھنس جائے تو اس کو چاہیے کہ وہ صبر اور حکمت کے ساتھ اس سے نکلنے کی جدوجہد کرے۔ اگر بالفرض اس کے پاس جدوجہد کرنے کی طاقت نہ ہو تب بھی اس کو چاہیے کہ وہ خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے آنے والے کل کا انتظار کرے۔
اس دنیا میں جس طرح محنت ایک عمل ہے، اسی طرح انتظار بھی ایک عمل ہے۔ جو شخص عمل کا ثبوت نہ دے سکے، اس کو چاہیے کہ وہ انتظار کا ثبوت دے۔ اگر اس نے سچا انتظار کیا تو عین ممکن ہے کہ وہ انتظار کے ذریعہ بھی اسی چیز کو پا لے جس کو دوسرے لوگ محنت کے راستہ سے تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ قدرت کا نظام خود اپنے آخری فیصلہ کو ظہور میں لانے کے لیے سرگرم ہے، بشرطیکہ آدمی مقرر وقت تک اس کا انتظار کر سکے۔
عربی کا ایک مقولہ ہے: رُبَّ ضارَّةٍ نافعة(بہت سی نقصان والی چیزیں نفع دینے والی ہوتی ہیں)۔ یہ قول نہایت بامعنی ہے۔ وہ زندگی کی ایک اہم حقیقت کو بتاتا ہے۔ یہ کہ اس دنیا میں کوئی نقصان صرف نقصان نہیں۔ یہاں ہر عسر کے ساتھ یسر ہے۔ یہاں ہر نقصان کے ساتھ ایک فائدہ کا پہلو لگا ہوا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ اس کو نقصان پیش آئے تو وہ مایوس ہو کر بیٹھ نہ جائے، بلکہ اپنے ذہن کو سوچ کے رخ پرلگائے۔ عین ممکن ہے کہ وہ ایسا امکان دریافت کر لے جو نہ صرف اس کے نقصان کی تلافی کرے بلکہ اس کو مزید اضافہ کے ساتھ کامیاب بنا دے۔
ایک شخص دیہات میں ایک زمیندار خاندان میں پیدا ہوا۔1925ء میں اس کے والد کا انتقال ہوگیا جب کہ اس کی عمر صرف 6 سال تھی۔ باپ کے مرنے کے بعد خاندان والوں نے جائیداد پر قبضہ کر لیا۔ اس کو ایک معمولی مکان کے سوا کوئی اور چیز نہیں ملی۔ مجبور ہو کر دس سال کی عمر میں وہ کمانے کے لیے نکلا۔ وہ دیہات سے نکل کر شہر میں چلا گیا۔ عرصہ تک وہ محنت مزدوری کرتا رہا۔ حالات نے اس کو دستکاری کے ایک کام میں لگا دیا۔ اپنی محنت سے وہ ترقی کرتا رہا۔ یہاں تک کہ اس نے ایک کارخانہ کھول لیا۔ اس کی ترقی جاری رہی۔70 سال کی عمر میں جب وہ مرا تو وہ ایک بڑا صنعت کار ہو چکا تھا۔ اس نے اپنے پیچھے کروڑوں روپیہ کی جائیداد چھوڑی۔
اس آدمی کے ساتھ اگر عُسر کی حالت پیش نہ آتی۔ دیہات میں اس کے تمام کھیت اس کو مل جاتے تو وہ اسی میں لگ جاتا۔ وہ ایک کسان کی حیثیت سے جیتا اور کسان کی حیثیت سے مرتا۔ مگر عُسر اور نقصان نے اس کو اوپر اٹھایا۔ اس کے تلخ تجربات نے اس کو زرعی دور سے نکال کر صنعتی دور میں پہنچا دیا۔
زندگی کے امکانات کی کوئی حد نہیں۔ ہر بار جب ایک امکان ختم ہوتا ہے تو وہیں زیادہ بڑا امکان آدمی کے لیے موجود رہتاہے۔ پھر کوئی شخص مایوس کیوں ہو۔ پھر آدمی نقصان پر فریاد و احتجاج کیوں کرے۔ کیوں نہ وہ نئے امکان کو استعمال کرے جو اس کی شام کو دوبارہ ایک روشن صبح میں تبدیل کر دینے والا ہے۔
آدمی کو چاہیے کہ جب ایک امکان کا سرا اس کے ہاتھ سے نکل جائے تو وہ کھوئی ہوئی چیز کا ماتم کرنے میں وقت ضائع نہ کرے۔ بلکہ نئے امکان کو دریافت کرکے اس کا استعمال شروع کر دے۔ عین ممکن ہے کہ اس تدبیر کے ذریعہ وہ پہلے سے بھی زیادہ بڑی کامیابی اپنے لیے حاصل کر لے۔