ایک واقعہ دو انجام
جمیل اختر خاں صاحب سعودی عرب کے ایک شہر میں رہتے ہیں۔ انہوں نے اپنے خط مورخہ 24 جنوری 1992ء میں خود اپنی آنکھ سے دیکھا ہوا ایک واقعہ لکھا ہے۔ یہ واقعہ ان کے اپنے الفاظ میں حسب ذیل ہے:
’’جولائی 1991ء کی ایک شام ہے۔ مغرب کی اذان ہو چکی ہے۔ میں کمرہ سے نکل رہا ہوں۔ گیٹ کے باہر چند لڑکے راہ گیروں سے چھیڑخانی کرتے نظر آ رہے ہیں۔ مجھے دیکھ کروہ لڑکے لپکے۔ ان کے ہاتھ میں خرگوش کے قسم کا کوئی جنگلی جانور ہے۔ مجھے ڈراتے رہے۔ایک نے چاہا سریا کندھے پر پھینک دیں اور پھرتماشہ دیکھیں۔ میں بھانپ گیا کہ اگر ان سے الجھا تو خیر نہیں۔ دل ہی دل میں سوچ لیاکہ یہ جو بھی بے ہودہ حرکت کریں ردعمل کااظہارنہیں کروں گا۔ میں تیزتیز قدموں سے مسجد کی طرف چلتا رہا۔ میری بے توجہی پر ان لڑکوں نے بھی مجھے میرے حال پر چھوڑ دیا یہاں تک کہ میں بے ضرر مسجد پہنچ گیا۔ نماز سے فراغت کے بعد جب کمرہ میں واپس آ رہا ہوں تو ایک اور منظر سامنے ہے۔ دیکھا وہی لڑکے ایک پاکستانی مسلمان سے الجھے ہوئے ہیں۔ان لوگوں نے اس جانور کو اس کے بدن پر پھینک دیا۔ اس پر وہ غصہ ہو گیا۔ ایک لڑکے کو مار بیٹھا۔ بس یہیں سے کھیل شروع ہو گیا۔ نتیجۃً درجن بھر لڑکے اس پر ٹوٹ پڑے۔ کوئی سر کی مالش کر رہا ہے، کوئی پیٹھ کو تختۂ مشق بنائے ہوئے ہے۔ ایک نے پیچھے سے دونوں بانہہ پکڑ لیے۔ دوسرے نے سینہ پر گھما گھمی شروع کر دی۔ کسی طرح ایک سے جان چھڑاتا تو دوسرا لپٹ جاتا۔ مار مار کر اس کا برا حال کر دیا۔ کون تھا جو اسے چھڑانے جاتااوراپنی شامت مول لیتا۔ یہاں تک کہ ا یک سعودی جو اس راہ سے گزر رہا تھا، رحم آیا۔ گاڑی روکی۔ دخل اندازی کر کے معاملہ رفع دفع کیا۔ ان صاحب کو معلوم نہیں کتنے دنوں تک چوٹ اور غم کے ساتھ بستر پکڑے رہنا پڑا ہو گا۔
ایک ہی معاملہ میں ا یک کی ’’نظر انداز کی پالیسی‘‘ نے اسے بے ضرر چھوڑ دیا دوسرے کو بے صبری کا بروقت تحفہ مل گیا۔ حالانکہ وہ صاحب اگر صرف اتنا کرتے کہ چند قدم لپکتے ہوئے چلتے تو کمرہ میں پہنچ جاتے۔ بعد میں کمرہ میں پہنچے مگر اس حال میں کہ چوٹ سے نڈھال تھے۔ میں نے سوچا انفرادی معاملہ میں بے صبری یہ رنگ لا سکتی ہے تو اجتماعی معاملہ میں وہ کتنا زیادہ سنگین ہو جائے گی۔‘‘