فاصلہ پر رہو
سڑک پر بیک وقت بہت سی سواریاں دوڑتی ہیں۔ آگے سے پیچھے سے، دائیں سے بائیں سے۔ اس لیے سڑک کے سفر کو محفوظ حالت میں باقی رکھنے کے لیے بہت سے قاعدے بنائے گئے ہیں۔ یہ سڑک کے قاعدے (traffic rules) سڑک کے کنارے ہر جگہ لکھے ہوئے ہوتے ہیں تاکہ سڑک سے گزرنے والے لوگ انہیں پڑھیں اور ان کی رہنمائی میں اپنا سفر طے کریں۔
دہلی کی ایک سڑک سے گزرتے ہوئے اسی قسم کا ایک قاعدہ بورڈ پر لکھا ہوا نظر سے گزرا۔ اس کے الفاظ یہ تھے— فاصلہ برقرار رکھو:
Keep Distance
میں نے اس کو پڑھا تو میں نے سوچا کہ ان دو لفظوں میں نہایت دانائی کی بات کہی گئی ہے۔ یہ ایک مکمل حکمت ہے۔ اس کا تعلق سڑک کے سفر سے بھی ہے اور زندگی کے عام سفر سے بھی۔
موجودہ دنیا میں کوئی آدمی اکیلا نہیں ہے۔ ہر آدمی کو دوسرے بہت سے انسانوں کے درمیان رہتے ہوئے اپنا کام کرنا پڑتا ہے۔ ہر آدمی کے سامنے اس کا ذاتی انٹرسٹ ہے۔ ہر آدمی اپنے اندر ایک انالیے ہوئے ہے۔ ہر آدمی دوسرے کو پیچھے کرکے آگے بڑھ جانا چاہتا ہے۔
یہ صورت حال تقاضا کرتی ہے کہ ہم زندگی کے سفر میں’’فاصلہ پر رہو‘‘ کے اصول کو ہمیشہ پکڑے رہیں۔ ہم دوسرے سے اتنی دوری پر رہیں کہ اس سے ٹکرائو کا خطرہ مول لیے بغیر ہم اپنا سفر جاری رکھ سکیں۔ اسی حکمت کو قرآن میں اعراض کہا گیا ہے۔ اگر آپ اعراض کی اس حکمت کو ملحوظ نہ رکھیں تو کہیں آپ کا فائدہ دوسرے کے فائدہ سے ٹکرا جائے گا۔ کہیں آپ کا ایک سخت لفظ دوسرے کو مشتعل کرنے کا سبب بن جائے گا۔ کہیں آپ کی بے احتیاطی آپ کو غیر ضروری طور پر دوسروں سے الجھا دے گی۔
اس کے بعد وہی ہوگا جو سڑک پر ہوتا ہے۔ یعنی سڑک ایکسیڈنٹ آدمی کے سفر کو روک دیتا ہے۔ بعض اوقات خود مسافر کا خاتمہ کر دیتا ہے۔ اسی طرح زندگی میں مذکورہ اصول کو ملحوظ نہ رکھنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ کی ترقی کا سفر رک جائے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ خود اپنی زندگی سے محروم ہو جائیں۔ آپ تاریخ کے صفحہ سے حرفِ غلط کی طرح مٹا دیے جائیں۔ ماضی میں اور حال میں اس کی بے شمار مثالیں ہیں۔ جب بھی کسی شخص نے اپنی مقررہ حد کو پار کیا، وہ لازمی طور پر برے انجام کا شکار ہوا۔
نیتین والیا ایک 3 سالہ بچہ ہے۔ وہ اپنے والدین(وجے پال والیا اور سونیتا) کے ساتھ شاہدرہ میں رہتا ہے۔ بچہ کو چڑیا گھر دیکھنے کا شوق تھا۔ اس کے والدین اس کو دہلی کا چڑیا گھر دکھانے کے لیے لے گئے۔ مختلف جانوروں کو دیکھتے ہوئے یہ لوگ وہاں پہنچے جہاں سفید شیر کا پنجرہ ہے۔ وہ شیر اور اس کے بچے کو دیکھنے کے لیے رکے۔ یہاں نیتین ریلنگ کے اندر داخل ہوگیا اور پنجرہ میں اپنا ہاتھ ڈال دیا۔ شیرنی(نیما) نے جھپٹ کر اس کا ہاتھ اپنے منہ میں لے لیا۔ لوگوں نے اس کو لکڑی سے مار کر ہٹایا، مگر اس دوران وہ بچے کا ہاتھ کندھے تک چبا چکی تھی۔ آپریشن کے بعد بچہ زندہ ہے مگر وہ ساری عمر کے لیے اپنے دائیں ہاتھ سے محروم ہو چکا ہے۔ ٹائمس آف انڈیا(21 مارچ1988ء) کے رپورٹر کے مطابق، بچہ کے والدین نے اس حادثہ کی ذمہ داری چڑیا گھر کے کارکنوں پر ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پنجرہ کے پاس کوئی چوکیدار موجود نہ تھا:
The parents claim that there were no gaurds around.
اکثر لوگوں کا یہ حال ہے کہ جب ان کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو وہ فوراً اپنے سے باہر کسی کو تلاش کرتے ہیں جس پر حادثہ کی ذمہ داری ڈال سکیں۔ مگر موجودہ دنیا میں اس قسم کی کوشش سراسر بے فائدہ ہے۔ یہاں حادثات سے صرف وہ شخص بچ سکتا ہے جو اپنے آپ کو قابو میں رکھے۔ جو شخص خود بے قابو ہو جائے وہ لازماً حادثہ سے دو چار ہوگا، خواہ دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرانے کے لیے اس نے ڈکشنری کے تمام الفاظ دہرا ڈالے ہوں۔
چڑیا گھر میں خونخوار جانور کے کٹہرے سے چار فٹ کے فاصلہ پر ریلنگ(railing) لگی ہوئی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ جانور کے مقابلہ میں آدمی کو ایک محفوظ فاصلہ پر رکھا جائے۔ اسی طرح زندگی کے ہر موڑ پر ایک ریلنگ کھڑی ہوتی ہے۔ جو شخص ریلنگ کو حد سمجھ کر وہاں ٹھہر جائے وہ محفوظ رہے گا۔ اور جو شخص ریلنگ کو پار کر جائے، وہ اپنے آپ کو حادثات سے نہیں بچا سکتا، نہ چڑیا گھر کے اندر اور نہ چڑیا گھر کے باہر۔