نمونہ کی اقلیت
ایشیائی ملکوں کے جو لوگ امریکہ میں ہیں ان کو ایشیائی امریکی (Asian Americans) کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ 1965ء سے آ کر یہاں آباد ہونا شروع ہوئے۔ وہ زیادہ تر چین ، کوریا ، انڈو چائنا وغیرہ ملکوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ لوگ جب یہاں آئے تو ان کا حال یہ تھا کہ ان میں سے بہت سے لوگ انگریزی میں معمولی گفتگو بھی نہیں کر سکتے تھے۔ آج وہ، ریڈرس ڈائجسٹ کی رپورٹ کے مطابق ، امریکہ کے بہترین انگلش اسکولوں میں اعلیٰ طالب علم (super students) کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ ان کی تعداد اگرچہ مجموعی آبادی میں صرف 2 فیصد ہے ، مگر مختلف امریکی اداروں میں انہوں نے 20 فیصد تک جگہ لینے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ وہ ہر جگہ زیادہ لائق (overqualified) ثابت ہو رہے ہیں۔
اس صورت حال نے امریکی دماغوں کو سوچنے پر مجبور کردیا۔ چنانچہ اس پر باقاعدہ ریسرچ کی گئی۔ اس ریسرچ کی رپورٹ مختلف امریکی اور غیر امریکی جرائد میں شائع ہوئی ہے۔ چند حوالے یہ ہیں:
1. New York Times, New York, August 3, 1986
2. Why Asian Americans are doing so well
Times Magazine, New York, August 31,1987
3. Why Asian American students excel
Reader's Digest, August 1987
4. Why Asian succeed in America
Span monthly, December 1987
5. Among the top 6 science students of the United States
The Hindustan Times, New Delhi, August 30, 1987.
عام امریکی نوجوانوں کے مقابلہ میں ایشیائی امریکی تعلیم کے ہر شعبہ میں آگے کیوں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی کوشش کی مقدار امریکی نوجوانوں سے بڑھی ہوئی ہے۔ ہاروڈ یونیورسٹی میں نفسیات کے پروفیسر جیروم کاگن سے پوچھا گیا کہ کیا سبب ہے کہ ایشیائی امریکی طلبہ اصل امریکی طلبہ کے مقابلہ میں زیادہ کامیاب ہیں۔ ٹائم کی رپورٹ کے مطابق ، انہوں نے کہا کہ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ وہ زیادہ محنت کرتے ہیں:
To put it plainly, they work harder.
یہ لوگ تعلیم کو اپنے لیے کامیابی کا ٹکٹ (ticket to success) سمجھتے ہیں اور واقعی امریکہ کا تعلیمی نظام ان کے لیے کامیابی کا یقینی ٹکٹ ثابت ہوا ہے۔ اس ٹکٹ کو حاصل کرنے کے لیے انہوں نے جو قیمت ادا کی ہے وہ ایک لفظ میں امتیاز (excellence) ہے۔
اپنے اس عمل سے انہوں نے امریکہ میں نمونہ کی اقلیت (model minority) کا درجہ حاصل کر لیا ہے۔ تاہم امریکہ میں ان کے لیے راستہ بالکل کھلا ہوانہیں تھا۔ ان کو نسلی امتیاز اور حقارت آمیز سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکی نوجوان ان کامذاق اڑاتے اور ان کو زرد خطرہ (yellow peril) کہتے۔ حتیٰ کہ جسمانی طور پر مارنے پیٹنے کے واقعات بھی ہوتے رہے۔ مگر ایشیائی امریکنوں نے اس کے مقابلہ میں کسی بھی قسم کا ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ وہ شکایت اور احتجاج کے طریقہ سے مکمل پرہیز کرتے رہے۔ اس کے جواب میں انہوں نے جو کچھ کیا وہ صرف یہ تھاکہ انہوں نے اپنی محنت کی مقدار بڑھا دی۔ ان کے والدین نے ان کے جذبات کو جوابی اشتعال سے بچایا اور اس کو جوابی محنت کے رخ پر ڈال دیا۔ ایشیائی خاندانوں میں تعلیم ایک قسم کا کابوس (obsession) بن کر چھا گئی۔ ایشیائی امریکیوں کے گھروں کی فضا یہ ہو گئی کہ اگر ان کا لڑکا 80فیصد نمبر لائے تو وہ کہیں گے کہ 85فیصد کیوں نہیں اوراگر لڑکا 85فیصد نمبر لائے تو اس کا باپ کہے گا کہ تم 90فیصد بھی تو لا سکتے تھے۔
کسی گروہ کو مسائل کا سامنا ہو تو اس کے لیے اپنے مسئلہ کو حل کرنے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک وہ جس کا نمونہ ہم کو ہندوستان میں نظر آتا ہے، یعنی مطالبہ اور احتجاج۔ اس طریق کار پر چلنے میں بیک وقت دو نقصانات ہیں۔ ایک یہ کہ اصل مسئلہ حل ہونے کے بجائے اور پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ اس دنیا میں ہرچیز عمل کے ذریعہ ملتی ہے، نہ کہ مطالبہ کے ذریعہ۔ اور جو چیز عمل کے ذریعہ ملتی ہو اس کو مطالبہ کے ذریعہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کو دور سے دور تر کر دینا ہے۔ دوسری بات یہ کہ ایسا گروہ دوسروں کی نظر میں بے عزت ہو جاتا ہے۔ مطالبہ اور احتجاج کا مطلب اپنے مسائل کا بوجھ دوسروں کے اوپر ڈالنا ہے اور کون ہے جو اپنے مسائل کا بوجھ دوسروں کے اوپر ڈالنے کے بعد دوسروں کی نظر میں حقیر اور بے عزت نہ ہو جائے۔
اس کے برعکس، مثال امریکہ کے ایشیائی امریکی گروہ کی ہے۔ انہوں نے اپنے مسئلہ کا حل یہ دریافت کیا کہ وہ اس کی ساری ذمہ داری خود قبول کریں۔ وہ اشتعال کے باوجود مشتعل نہ ہوں اور آخری حد تک پرامن رہتے ہوئے دوسروں سے زیادہ محنت کریں۔ ان کاتجربہ بتاتا ہے کہ اس طرح عمل کرنے کے نتیجہ میں ان کا مسئلہ مکمل طور پرحل ہو گیا ، بلکہ انہوں نے اپنے عددی تناسب سے زیادہ بڑا حصہ اپنے لیے پا لیا۔
منفی رویہ اختیار کرنا گویا اپنے مسئلہ کا بوجھ دوسروں کے سر پر ڈالنا ہے اور مثبت رویہ کا مطلب اپنے مسئلہ کی ذمہ داری خود قبول کرنا۔ اس لیے مثبت رویہ اختیار کرنے کامزید فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے لوگ سماج میں کوئی پیچیدگی پیدا کرنے کا سبب نہیں بنتے۔ چنانچہ ایشیائی امریکنوں نے جب مثبت انداز سے اپنے مسئلہ کوحل کرنے کی راہ نکالی تو وہ امریکی سماج میں مزید فائدوں کو ظہور میں لانے کا ذریعہ بن گئے۔
اول یہ کہ انہوں نے امریکی نوجوانوں کے درمیان مقابلہ و مسابقت کی فضا پیدا کی۔ وہ امریکی نوجوان جو اپنے کو محفوظ سمجھ کر محنت میں کمی کرنے لگے تھے ، ان کے اندر یہ جذبہ ابھر آیا کہ اگر انہیں زندہ رہناہے اور ترقی کرنا ہے تو ان کو بھی ایشیائیوں کی طرح زیادہ محنت کرنی پڑے گی۔
ٹائم کی رپورٹ کے مطابق ، خود امریکی دانشوروں کو اعتراف کرنا پڑا کہ ایشیائی امریکیوں نے ہمارے نوجوانوں کی سستی کو ختم کر کے ان کو ازسرِ نو چست بنا دیا ہے۔ ہمارے سماج میں ان کی موجودگی ہمارے لیے ایک عظیم رحمت ہے:
Their Presence is going to be great blessing for society (p. 53)
اسپان (دسمبر 1987) کی رپورٹ کے مطابق ، نیو یارک کے ایک درمیانی عمر کے آدمی نے کہا کہ ایشیائی امریکنوں کے لیے خداکا شکریہ ، وہ ہمارے اسکولوںمیں دوبارہ معیار کو واپس لا رہے ہیں:
Thank God for the Asians. They bringing back standards to our schools (p.32).
2۔ ایشیائی امریکی گروہ کودوسر فائدہ یہ ملا کہ جب انہوں نے معاشی عزت حاصل کی تو ان کی تہذیب بھی لوگوں کی نظر میں باعزت بن گئی۔ ان کی قومی روایات امریکیوں کی نظرمیں محترم بن گئیں۔ یہ ایشیائی امریکی لوگ کنفیوشش کو اپنا مذہبی پیشوا مانتے ہیں۔ جب ایشیائی امریکیوں کی ایک قابل تعریف خصوصیت امریکہ والوں کے سامنے آئی تو انہوں نے ان کی اس خصوصیت کو ان کے قومی بزرگ (کنفیوشش) سے جوڑ دیا۔ ایشیائی امریکیوں کے ممتاز عمل نے امریکیوں کی نظرمیں ان کے مذہب اور ان کی تہذیب کو قابلِ توجہ بنادیا۔ اسپان کی رپورٹ کے مطابق ، نیو یارک یونیورسٹی کے پریذیڈنٹ نے کہاکہ جب میں اپنے ایشیائی طلبہ کو دیکھتا ہوں تو مجھے یقین ہوتا ہے کہ ان کی کامیابی زیادہ تو کنفیوشش کی تعلیمات کا نتیجہ ہے:
When I look at our Asian-American students, I am certain that much of their success is due to Confucianism. (p.32)
ایشیائی مہاجرین کا مقابلہ جہاں عام امریکیوں سے پیش آتا ہے، وہ ان کے مقابلہ میں زیادہ لائق (overqualified) ثابت ہوتے ہیں۔ اس طرح وہ عام امریکیوں کے لیے ایک مہمیز یا چیلنج بن گئے ہیں۔وہ امریکی نوجوانوںمیں محنت کانیا جذبہ ابھارنے کا ذریعہ ثابت ہو رہے ہیں۔ ایشیائی مہاجرین نے مثبت طور پراپناذاتی مسئلہ حل کیا تھا ، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امریکی سماج کااپنا مسئلہ بھی حل ہو گیا۔
ایشیائی مہاجرین نے امریکہ میں صرف ایک نسل کے اندر وہ کامیابی حاصل کی ہے جس کو عام طور پر لوگ تین نسلوں میں حاصل کرتے ہیں۔ ان کی اس غیرمعمولی کامیابی نے امریکہ میں ایک نئی اصطلاح پیدا کی ہے جس کو ایشیائی اخلاقیاتِ عمل (Asian work ethics) کہا جاتا ہے۔ اب وہاںکہا جانے لگا ہے کہ اگر اعلیٰ ترقی حاصل کرنا ہے تو ایشیائی اخلاقیاتِ عملی کو اختیار کرو۔
یہی دروازہ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے بھی زیادہ بڑے پیمانے پر کھلا ہوا ہے۔ مسلمان اگر ان قومی جھگڑوں کو چھوڑ دیں جن میں ان کے سطحی لیڈروں نے انہیں بے فائدہ طور پر اُلجھارکھاہے ، اور وہ اسلام کے دیے ہوئے ابدی اصولوں پر اپنی زندگی کی مثبت تعمیر شروع کر دیں تو اس ملک میں وہ ایک نئے انقلاب کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ اس طرح مسلمان نہ صرف اپنا مسئلہ حل کریں گے بلکہ وہ اس ملک کو ایک نیا معیار دیں گے جس کو ایک لفظ میں مسلم اخلاقیات عمل (Muslim work ethics) کہا جا سکتا ہے اور جب ایسا ہو گا تو مسلمان اس ملک میں سرمایہ بن جائیں گے جو کہ اس وقت ملک کے لیے صرف ایک بوجھ (liability) بنے ہوئے ہیں۔
ہندوستان کے مسلمان ابھی تک تہذیبی تشخص (cultural identity) حاصل کرنے کے لیے مطالباتی تحریکیں چلانے میں مشغول رہے ہیں۔ میرے نزدیک اس قسم کی تمام کوششیں سراسر بے فائدہ ہیں۔ کیوں کہ تہذیبی تشخص اپنی داخلی قوت سے قائم ہوتا ہے، وہ مطالبہ کر کے حاصل نہیں کیاجاتا۔
زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ مسلمان اخلاقی تشخص کو اپنانشانہ بنائیں۔ وہ اسلامی اخلاق اختیار کرنے کو اپنا نشان امتیاز قرار دیں۔ مسلمان اگر اخلاقی حیثیت سے اپنا تشخص قائم کر سکیں تووہ تہذیبی حیثیت سے بھی اپنے آپ اپناتشخص پا لیں گے جس کے لیے وہ بے فائدہ طور پر مطالباتی مہم چلانے میں مشغول ہیں۔
Ticket to Success
NO matter what their route young Asian Americans, largely those with Chinese, Korean and Indochinese backgrounds, are setting the educational pace for the rest of America and cutting a dazzling figure at the country's finest schools.
Trying to explain why so many Asian-American students are superachievers,Harvard Psychology Professor jerome Kagan comes up with this simple answere: ''To put it Plainly, they work harder.' 'Even with the problems (of restriction and discriminination), many Asian-American students are making the U.S. education system work better for them than it has for any other immigrant group since the arrival of East European jews began in the 1880s. Like the Asians, the Jews veiwed education as the ticket to success. Both groups ''feelan obligation to excel intellectually,'' says News York University Mathematician sylvain Cappell, who as a Jewish immigrant feels a kinship with his Asian-American students. The two groups share a powerful belief in the value of hard work and a zealous regard for the role of the family. such achievements are reflected in the nation'sbest universities, where match, science and engineering departments have taken on a decidely Asian character. At the University of Washington 20% of all engineering students are of Asian descent; at Berkeley the figure is 40%. To win these places Asian-American students make the SAT seem as easy as taking a driving test. The average math score of Asian American high school seniors in 1985 was 518 (of a possible 800), 43 points higher than the general average.
A telling measure of parental attention is homework. A 1984 study of San Francisco-area schools by Stanford Sociologist Sanford Dornbusch found that Asian-American students put in an average of eleven hours a week, compared with seven hours by other students. Some Asian Americans may be pushing their children too hard. Says a Chinese-American high schools in New York City; ''When you get an 80, they say, 'Why not an 85? If you get an 85, it's 'Why not a 90?' ''Years ago,'' complains Virginia Kee, a high school teacher in New York's Chinatown, ''they used to think you were Fu Manchu or Charlie Chan. Then they thought you must own a laundry or restaurant. Now they think all we Know how to do is sit in front of a computer.'' The image of Asian Americans is as relentless book-worms. ''If you are weak in math or science and find yourself assigned to a class with a majority of Asian Kids, the only thing to do is transfer to a different section,'' says a white Yale sophomore.
The performance of Asian Americans also triggers resentment and tension, ''Anti-Asian activity in the form of violence, vandalism, harassment and intimidation continues to occur across the nation,'' the U.S. Civil Rights Commission declared last year. Young immigrant Asians complain that they are constantly threatened. To some Asian Americans being only ''very good'' is tantamount to failure. ''It seems to me that having people like this renews our own striving for excellence,'' observes Emmy Werner professor of humasn development at the University of California at Davis. ''We shouldn't be threatened but challenged.'' Mathematician Cappell is thrilled by the new inheritors. ''Their presence.'' he says, ''is going to be a great blessing for society.''