دشمن میں دوست

ڈاکٹر سید عبداللطیف(1891-1971)کرنول(دکن) میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے انگریزی ترجمۂ قرآن اور دوسری خدمات کی وجہ سے کافی مشہور ہیں۔ وہ مقامی ہائی سکول میں اپنے والد کی اطلاع کے بغیر داخل ہوگئے تھے۔ والد کو انگریز اور انگریزی تعلیم سے سخت نفرت تھی۔ ان کو معلوم ہوا تو غصہ ہوگئے اور درشت لہجے میں پوچھا کہ انگریزی پڑھ کر کیا کرے گا۔ دبلے پتلے، پست قامت لڑکے نے جواب دیا: انگریزی پڑھ کر قرآن کا ترجمہ انگریزی زبان میں کروں گا۔1915ء میں انہوں نے بی اے کا امتحان امتیاز کے ساتھ پاس کیا۔1920ء میں جامعہ عثمانیہ حیدر آباد میں انگریزی کے استاد مقرر ہوئے۔1922ء میں ان کے لیے نیا تعلیمی موقع پیدا ہوا، جب کہ جامعہ عثمانیہ کے چار استادوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ بھیجنا طے پایا، اور ان کے لیے ریاست کی طرف سے 30 ہزار روپے کا بلاسودی قرض منظور کیا گیا۔ ان میں سے ایک سید عبداللطیف بھی تھے۔

 لندن پہنچ کر وہ وہاں بی اے (آنرز) میں داخلہ لینا چاہتے تھے۔ مگر کنگس کالج کے صدر شعبۂ انگریزی اور دوسری انگریز اساتذہ آپ کی صلاحیت سے اس درجہ متاثر ہوئے کہ آپ کو بی اے اور ایم اے سے مستثنیٰ کرتے ہوئے براہ راست پی ایچ ڈی کرنے کی اجازت دے دی۔ آپ کے مقالہ کا عنوان’’اردو ادب پر انگریزی ادب کے اثرات‘‘ طے پایا۔ مقالہ کی تیاری کی مدت تین سال مقرر کی گئی تھی۔ مگر آپ نے دو سال ہی میں پی ایچ ڈی کے مقالہ کی تکمیل کر لی۔ کنگس کالج کے ذمہ داروں نے اس کو منظور کرتے ہوئے ڈاکٹریٹ کا مستحق قرار دیا۔ سید عبداللطیف مقررہ مدت سے ایک سال پہلے ڈاکٹر ہو کر حیدر آباد واپس آگئے۔ یہاں آپ کو فوراً جامعہ عثمانیہ کا پروفیسر بنا دیا گیا(انجمن، ازحسن الدین احمد آئی اے ایس)۔

1922ء انگریز کو مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن سمجھا جاتا تھا۔ مگر اسی دشمن نے مسلمان طالب علم کے ساتھ فیاضی کا وہ معاملہ کیا جس کی مثال مسلم اداروں میں بھی مشکل سے ملے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ ’’دشمن انسان‘‘ کے اندر بھی’’دوست انسان‘‘ موجود ہوتا ہے۔ مگر اس دوست انسان کو وہی لوگ پاتے ہیں جو دوستی اور دشمنی سے اوپر اٹھ کر انسانوں سے معاملہ کرنا جانتے ہوں۔

عام مزاج یہ ہے کہ لوگ اپنوں کو اپنا اور غیروں کا غیر سمجھتے ہیں۔ مگر کھلے دل والے انسان کے لیے ہر ایک اس کا اپنا ہے، کوئی اس کا غیر نہیں۔

 سوامی رام تیرتھ(1873-1906) نہایت قابل آدمی تھے۔ ان کا ایک بہت بامعنی قول ہے: زندگی کے سب دروازوں پر لکھا ہوا ہوتا ہے’’کھینچو‘‘ مگر اکثر ہم اسے ’’دھکا‘‘ دینا شروع کر دیتے ہیں۔ سوامی رام تیرتھ روانی کے ساتھ انگریزی بولتے تھے۔ وہ دھرم کے پرچار کے لیے 1903ء میں امریکہ گئے۔ ان کا جہاز سان فرانسسکو کے سمندری ساحل پہ لنگر انداز ہوا۔ وہ اترے تو ایک امریکی ازراہ تعارف ان کے قریب آیا۔ اس کے بعد جو گفتگو ہوئی وہ یہ تھی:

’’آپ کا سامان کہاں ہے‘‘ امریکی نے پوچھا۔

’’میرا سامان بس یہی ہے‘‘ سوامی رام تیرتھ نے جواب دیا۔

’’اپنا روپیہ پیسہ آپ کہاں رکھتے ہیں‘‘

’’میرے پاس روپیہ پیسہ ہے ہی نہیں‘‘

’’پھر آپ کا کام کیسے چلتا ہے‘‘

’’میں سب سے پیار کرتا ہوں، بس اسی سے میرا سب کام چل جاتا ہے‘‘

’’تو امریکہ میں آپ کا کوئی دوست ضرور ہوگا‘‘

’’ہاں ایک دوست ہے اور وہ دوست یہ ہے‘‘

سوامی رام تیرتھ نے یہ کہا اور اپنے دونوں بازو امریکی شخص کے گلے میں ڈال دیے۔ امریکی ان کی اس بات سے بہت متاثر ہوا۔ اس کے بعد وہ امریکی ان کا اتنا گہرا دوست بن گیا کہ وہ انہیں اپنے گھر لے گیا اور سوامی رام تیرتھ جب تک امریکہ میں رہے وہ برابر ان کے ساتھ رہا اور ان کی خدمت کرتا رہا۔ حتیٰ کہ وہ ان کا شاگرد بن گیا۔

اس دنیا میں محبت سب سے بڑی طاقت ہے۔ محبت کے ذریعہ آپ اپنے مخالف کو جھکا سکتے ہیں اور ایک اجنبی شخص کو اپنا بنا سکتے ہیں۔ بشرطیکہ آپ کی محبت سچی محبت ہو، وہ دکھاوے اور نمائش کے لیے نہ ہو۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom