ممکن اور ناممکن
سابق وزیر اعظم ہند لال بہادر شاستری جنوری 1966ء میں انتقال کر گئے۔ اس کے بعد کانگریس پارٹی نے مسز اندرا گاندھی کو وزیر اعظم بنایا۔ تاہم مرارجی ڈیسائی (1896-1995)سے ان کی کش مکش جاری رہی۔ کیوں کہ وہ خود وزیر اعظم بننا چاہتے تھے۔ 1967ء کے الیکشن کے بعد مرارجی ڈیسائی کو نائب وزیر اعظم بنایا گیا۔
مگر مرارجی ڈیسائی نائب وزیر اعظم کے عہدہ کو اپنے لیے کمتر سمجھتے تھے۔ چنانچہ کش مکش بدستور جاری رہی۔ سابق وزیر اطلاعات مسٹر اندر کمار گجرال نے لکھا ہے کہ 1969ء میں مسز اندرا گاندھی نے ان کے ذریعہ مرار جی ڈیسائی کو یہ پیش کش کی کہ ان کو مزید اعزاز دے کر راشٹرپتی (پریذیڈنٹ) کا عہدہ دے دیا جائے۔ مسٹر گجرال کا بیان ہے کہ جب انہوں نے یہ پیشکش مرار جی ڈیسائی کے سامنے رکھی تو بلاتاخیر ان کا جواب یہ تھا:
Why not she herself?
اندرا گاندھی خود کیوں نہیں (ٹائمس آف انڈیا 12 جولائی 1987ء)۔یعنی اندرا گاندھی خود پریذیڈنٹ بن جائیں اور مجھے وزیر اعظم بنا دیں۔ واقعات بتاتے ہیں کہ مرارجی ڈیسائی کانگریس سے الگ ہو گئے۔ انہوں نے وزیر اعظم بننے کے لیے سارے ملک کو اُلٹ پلٹ ڈالا۔ مارچ 1977ء کے الیکشن میں جنتا پارٹی کی جیت کے بعد وہ مختصر مدت کے لیے وزیر اعظم بن بھی گئے۔ مگر جلد ہی بعد وہ سیاسی زوال سے دوچار ہوئے اور پھر کبھی ابھر نہ سکے۔
مرارجی ڈیسائی کی سیاسی ناکامی کا اصل سبب یہ تھاکہ وہ ممکن کو چھوڑ کر ناممکن کی طرف دوڑے۔ اگر وہ اس راز کوجانتے کہ موجودہ حالات میں ان کے لیے جو آخری ممکن چیز ہے وہ صدارت ہے ، نہ کہ وزارت عظمیٰ، تو یقیناً وہ ذلت اور ناکامی سے بچ جاتے۔ مگر ناممکن کے پیچھے دوڑنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ممکن سے بھی محروم ہوکررہ گئے— ناممکن کے پیچھے دوڑنا، آدمی کو ممکن سے بھی محروم کر دیتا ہے۔ جب کہ ممکن پر قانع ہونے والا ممکن کو بھی پاتا ہے اور بالآخر ناممکن کو بھی۔