جنگ، امن
الرسالہ کا شمارہ مئی 1991ء ’’خلیج ڈائری‘‘ کے طور پر شائع ہوا تھا۔ 2 فروری 1991ء کو میں نے اپنی ڈائری میں جو صفحہ لکھا تھا، اس میں یہ الفاظ تحریر کیے تھے: اس جنگ میں فتح کا تمغہ خواہ جس فریق کو ملے، عام انسان کی مصیبتوں میں بے پناہ اضافہ ہو جائے گا۔ اور یہ مصیبتیں عالمی ہوں گی، حتیٰ کہ ان مصیبتوںکا برا اثر اس ملک تک بھی پہنچ جائے گا جس نے جنگ کے بعد فتح کا تمغہ حاصل کیا ہے۔
اس تحریر کے ا یک ماہ بعد جنگ بندی ہوئی تو واقعۃً ایسا ہی ہوا۔ چنانچہ جنگ ختم ہو گئی مگر مسائل ختم نہیں ہوئے۔ ٹائم میگزین (15 اپریل 1991ء) نے اس کے بارے میں تفصیلی رپورٹ شائع کی جس میں بتایا گیا ہے کہ خلیج میں فتح کے باوجود کس طرح نئے مسائل کا سامنا درپیش ہے۔ ٹائم نے لکھا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی اب ایک نئی مشکل سے دوچار ہو رہے ہیں:
America and its allies confront a new dilemma. (p.18)
ٹائم کے مذکورہ شمارہ کو پڑھنے کے بعد ٹائم کے کچھ قارئین نے اس کو خطوط لکھے ہیں۔ یہ خطوط میگزین کے شمارہ 6 مئی 1991ء میں چھپے ہیں۔ ایک امریکی مکتوب نگار نے لکھا ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صدر بش نے خلیج میں لڑائی جیت لی مگر وہ جنگ کو ہار گئے:
It Looks Like Bush has won the battle..... and lost the war in the Gulf. (Lloyed Ringuist,Marshfield, Wisconsin)
لڑائی صرف تخریب برپا کرتی ہے، وہ تعمیر کا واقعہ ظہور میں نہیں لا سکتی۔ لڑائی میدانِ جنگ میں جیتی جا سکتی ہے، مگر میدانِ جنگ کے باہر حقیقی زندگی میں وہ فتح کی خوشی نہیں دیتی۔ اس کے باوجود کیوں لوگ لڑائی کی طرف دوڑتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ لڑائی لوگوں کو بڑی چیز معلوم ہوتی ہے۔ حالانکہ باعتبارِ حقیقت امن بڑی چیز ہے اور جنگ چھوٹی چیز۔ اگر لوگ اس حقیقت کو جان لیں تو ہر آدمی پُرامن تعمیر کی طرف دوڑے۔ اور جنگ کا میدان ہمیشہ کے لیے انسانوں سے خالی ہو جائے۔
جنگ ہیروازم ہے، مگر جنگ کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں۔ امن بظاہرزیرو ازم ہے، مگر تمام بہترین کامیابیاں ہمیشہ امن ہی کے ذریعہ سے حاصل ہوتی ہیں۔