آسان حل

الطاف حسین حالی پانی پتی(1837-1914) ایک انقلابی ذہن کے آدمی تھے۔ انہوں نے اردو ادب میں اصلاح کی تحریک چلائی۔ انہوں نے قدیم اردو شاعری پر سخت تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ اردو شاعری مبالغہ اور عشق و عاشقی اور فرضی خیال آرائی کا مجموعہ ہے۔ اس کے بجائے اس کو بامقصد شاعری ہونا چاہیے۔ اس کا ایک نمونہ انہوں نے خود’’مسدس‘‘ کی صورت میں پیش کیا۔

حالی کی یہ تنقید ان لوگوں کو بہت بری لگی جو اردو شاعری پر ناز کرتے تھے اور اس کو اپنے لیے فخر بنائے ہوئے تھے۔ چنانچہ حالی کے خلاف نہایت نازیبا قسم کے مضامین شائع ہونا شروع ہوئے۔ لکھنؤ کا اخبار’’اودھ پنچ‘‘ اکثر نہایت برے انداز میں ان کے خلاف لکھتا  اور اس کا عنوان ان الفاظ میں قائم کرتا:

ابتر ہمارے حملوں سے حالی کا حال ہے    میدان پانی پت کی طرح پائمال ہے

حالی نے ان بے ہودہ مخالفتوں کا کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ خاموشی کے ساتھ اپنا کام کرتے رہے۔ آخر کار چند سال کے بعد وہ لوگ تھک کر چپ ہوگئے۔ کسی نے حالی سے سوال کیا کہ آپ کے مخالفین کیسے خاموش ہوگئے۔ اس کے جواب میں حالی نے کسی کا نام لیے بغیر یہ شعر کہا:

کیا پوچھتے ہو کیوں کر سب نکتہ چیں ہوئے چپ      سب کچھ کہا انہوں نے پر ہم نے دم نہ مارا

جھوٹی مخالفتوں کا سب سے زیادہ آسان اور کارگر جواب یہ ہے کہ اس کا کوئی جواب نہ دیا جائے۔ جھوٹی مخالفت ہمیشہ بے بنیاد ہوتی ہے۔ اس کے لیے مقدر ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ ڈھ پڑے۔ ایسی مخالفت کا جواب دینا گویا اس کی مدّتِ عمر میں اضافہ کرنا ہے۔ اگر آدمی صبر کر لے تو بے جڑ درخت کی طرح ایک روز وہ اپنے آپ گر پڑے گی۔ وہ کبھی دیر تک خدا کی زمین پر قائم نہیں رہ سکتی۔

جھوٹ کا سب سے بڑا قاتل وقت ہے۔ آپ آنے والے وقت کا انتظار کیجیے۔ اور اس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ وقت نے اس فتنہ کو زیادہ کامل طور پر ہلاک کر دیا ہے جس کو آپ صرف ناقص طور پر ہلاک کرنے کی تدبیر کر رہے تھے۔ اس تدبیر کا تعلق کسی ایک معاملہ سے نہیں۔ جس معاملہ میں بھی خاموش انتظار کی یہ تدبیر اختیار کی جائے گی، آخر کار وہ کار گر ثابت ہوگی۔

 کچھ عیسائیوں نے دہلی کے پُلوں اور دیواروں پر کالے رنگ سے انگریزی میں یہ فقرہ لکھ دیا کہ مسیح جلد آنے والے ہیں(Jesus is coming soon) اس کے بعد کچھ ہندو نوجوانوں میں جوابی جوش پیدا ہوا۔ انہوں نے مذکورہ فقرہ کے آگے ہر جگہ یہ الفاظ لکھ دیئے کہ ہندو بننے کے (To become Hindu) جملہ کی ساخت بتاتی ہے کہ یہ پڑھے لکھے ہندوئوں کا فعل نہیں تھا۔ کیوں کہ انگریزی کے اعتبار سے صحیح جملہ یوں ہوگا:

To become a Hindu

اسی قسم کا واقعہ اگر کسی شہر میں مسلمانوں کے ساتھ پیش آتا تو فوراً کچھ سطحی قسم کے لوگ یہ کہنا شروع کر دیتے کہ یہ توہینِ رسول ہے۔ یہ مسلمانوں کی دل آزاری ہے، یہ ہماری ملّی غیرت کو چیلنج ہے۔ اس کے بعد کچھ مسلم نوجوان مشتعل ہو کر جوابی کارروائی کرتے اور پھر شہر کے اندر ہندو مسلم فساد ہو جاتا۔ اب نام نہاد مسلم لیڈر بیانات دے کر انتظامیہ کا نکما پن ثابت کرتے۔ ریلیف فنڈ کھول کر کچھ لوگ ملّی خدمات کا کریڈٹ لینا شروع کر دیتے۔ مسلمانوں کے اردو اخبارات میں گرما گرم سرخیاں چھپتیں جس کے نتیجہ میں ان کی اشاعت بڑھ جاتی۔ اور جہاں تک مسلم عوام کا تعلق ہے، ان کے حصہ میں اس کے سوا کچھ اور نہ آتا کہ ان کی بربادی میں مزید اضافہ ہو جائے۔ مگر عیسائیوں نے اس ’’اشتعال انگیز کارروائی‘‘ کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہ واقعہ محض ایک بے واقعہ(non-event) بن کر رہ گیا۔

19فروری1990 کی صبح کو میں اوبرائے ہوٹل(نئی دہلی) کے پاس فلائی اور پرکھڑا ہوا اس کی دیواروں پر یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ پُل کے دونوں طرف کی کشادہ سڑک پر سواریاں تیزی سے گزر رہی تھیں۔ کسی کو بھی یہ فرصت نہ تھی کہ وہ ٹھہر کر پُل کے اوپر لکھے ہوئے ان الفاظ کو پڑھے۔ یہ الفاظ پُل کی دیواروں پر ناقابل التفات نشان کے طور پر صرف اس بات کے منتظر تھے کہ بارش کا پانی اور ہوائوں کا جھونکا ان کو مٹا دے، اس سے پہلے کہ کوئی ان کو پڑھے یا ان سے کوئی اثر قبول کرے۔

 جو’’اشتعال انگیزی‘‘ اتنی بے حقیقت ہو، اس پر جو لوگ مشتعل ہو کر فساد کے اسباب پیدا کرتے ہیں وہ بلاشبہ تمام نادانوں سے زیادہ نادان ہیں۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom