رواجی ذہن
الیس ہووے (Elias Howe, 1819-1867) امریکہ کے مشہور شہر مساچوسٹس کا ایک معمولی کاریگر تھا۔ صرف 48 سال کی عمر میں اس کاانتقال ہو گیا۔ مگر اس نے دنیا کو ایک ایسی چیز دی جس نے کپڑے کی تیاری میں ایک انقلاب پیدا کر دیا۔ یہ سلائی کی مشین تھی جو اس نے 1845ء میں ایجاد کی۔ الیس ہووے نے جو مشین بنائی اس کی سوئی میں دھاگا ڈالنے کے لیے ابتداًء سوئی کی جڑ کی طرف چھید ہوتا تھا جیساکہ عام طور پر ہاتھ کی سوئیوں میں ہوتا ہے۔ ہزاروں برس سے انسان سوئی کی جڑ میں چھید کرتا آ رہا تھا۔ اس لیے الیس ہووے نے جب سلائی کی مشین تیار کی تو اس میں بھی عام رواج کے مطابق اس نے جڑ کی طرف چھید بنایا۔ اس کی وجہ سے اس کی مشین ٹھیک کام نہیں کرتی تھی۔ شروع میں وہ اپنی مشین سے صرف جوتا سی سکتا تھا۔ کپڑے کی سلائی اس مشین پر ممکن نہ تھی۔
الیس ہووے ایک عرصہ تک اسی ادھیڑ بن میں رہا مگر اس کی سمجھ میں اس کا کوئی حل نہیں آتا تھا۔ آخرکار اس نے ایک خواب دیکھا۔ اس خواب نے اس کا مسئلہ حل کر دیا۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ کسی وحشی قبیلہ کے آدمیوں نے اس کو پکڑ لیا ہے اور اس کو حکم دیا ہے کہ وہ 24 گھنٹہ کے اندر سلائی کی مشین بنا کر تیار کرے۔ ورنہ اس کو قتل کر دیا جائے گا۔ اس نے کوشش کی مگر مقررہ مدت میں وہ مشین تیارنہ کر سکا۔ جب وقت پورا ہو گیا تو قبیلہ کے لوگ اس کو مارنے کے لیے دوڑ پڑے۔ ان کے ہاتھ میں برچھا تھا۔ ہووے نے غور سے دیکھا تو ہر برچھے کی نوک پر ایک سوراخ تھا۔ یہی دیکھتے ہوئے اس کی نیند کھل گئی۔ ہووے کو آغاز مل گیا۔ اس نے برچھے کی طرح اپنی سوئی میں بھی نوک کی طرف چھید بنایا اور اس میں دھاگا ڈالا۔ اب مسئلہ حل تھا۔ دھاگے کا چھید اوپر ہونے کی وجہ سے جو مشین کام نہیں کر رہی تھی وہ نیچے کی طرف چھید بنانے کے بعد بخوبی کام کرنے لگی۔
ہووے کی مشکل یہ تھی کہ وہ رواجی ذہن سے اوپر اٹھ کر سوچ نہیں پاتا تھا۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ جو چیز ہزاروں سال سے چلی آ رہی ہے وہی صحیح ہے۔ جب اس کے لاشعور نے اس کو تصویر کا دوسرا رخ دکھایا اس وقت وہ معاملہ کو سمجھا اور اس کو فوراً حل کر لیا۔ جب آدمی اپنے آپ کو ہمہ تن کسی کام میں لگا دے تو وہ اسی طرح اس کے رازوں کو پا لیتا ہے جس طرح مذکورہ شخص نے پا لیا۔