محرومی کے بعد بھی
سموئل بٹلر(Samuel Butler) انیسویں صدی کا مشہور انگریز مصنف ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ زندگی اس فن کا نام ہے کہ ناکافی مقدمات سے کافی نتائج اخذ کیے جائیں:
Life is the art of drawing sufficient conclusions from insufficent premises.
سموئل بٹلر نے یہ بات فطری تعقل کے تحت کہی ہے۔ مگر زندگی کے بارے میں شریعت نے جو تصور دیا ہے وہ بھی عین یہی ہے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اس دنیا میں خدا نے جو نظام بنایا ہے، اس میں آسانی کے ساتھ مشکل لگی ہوئی ہے(إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا)94:6۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار ایک پہاڑی راستہ کو دیکھا جس کا نام لوگوں نے الضَّیْقَۃْ(دشوار) رکھ دیا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں۔ اس کا نام تو الیُسریٰ(آسان) ہے (مغازی الواقدی، جلد3، صفحہ925)۔ گویا اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ آدمی عسر میں یسر کو دریافت کرے۔ وہ دشوار گزار راستہ کو آسان راستہ کے روپ میں دیکھ سکے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اس تعلیم کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ آپ کو سخت ترین مشکلات پیش آئیں، مگر آپ نے حکیمانہ تدبیر سے ان کو اپنے حق میں آسان بنا لیا۔ آپ نے ڈس ایڈوانٹج (disadvntage)کو ایڈوانٹج میں تبدیل کر لیا۔ ایک مستشرق مسٹر کیلٹ (E.E.Kellet) نے آپ کی اس صفت کمال کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انہوں نے مشکلات کا سامنا اس عزم کے ساتھ کیا کہ ناکامی سے کامیابی کو نچوڑیں:
He faced adversity with the determination to wring success out of failure.
دنیا میں ایک طرف انسان ہے جو دوسرے انسان کے لیے مشکلات پیدا کرتا ہے۔ دوسری طرف خدا کا نظام ہے جس نے ہر مشکل کے ساتھ اس کا حل بھی رکھ دیا ہے۔ ایسی حالت میں انسانی مشکلات پر شور کرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ آدمی نے انسان کے عمل کو دیکھا مگر وہ خدا کے عمل کو نہ دیکھ سکا۔ کیوں کہ اگر وہ خدا کے عمل کو دیکھتا تو شکایت کرنے کے بجائے وہ اس کو استعمال کرنے میں لگ جاتا۔ اس دنیا میں ہرناکامی کے بعد ایک نئی کامیابی کا امکان آدمی کے لیے باقی رہتا ہے۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ آدمی اس امکان کو استعمال کرکے دوبارہ اپنے آپ کو کامیاب بنا لے۔
الرسالہ(دسمبر1988ء) میں کینڈا کھلاڑی بن جانسن(Ben Johnson) کا قصہ چھپ چکا ہے۔ اس کا عنوان ہے: مصنوعی کامیابی۔ دوڑ کے عالمی مقابلہ میں اس نے اول درجہ کی کامیابی حاصل کی۔ مگر اگلے ہی دن اس کا جیتا ہوا گولڈ میڈل اس سے چھین لیا گیا۔ مزید اس کے بارے میں یہ سخت فیصلہ کیا گیا کہ وہ اگلے دو سال تک کھیل کے مقابلوں میں حصہ نہ لے سکے گا۔ بن جانسن کے لیے یہ اس کی زندگی کا شدید ترین حادثہ تھا۔ تاہم اس نے ’’ظالم ججوں‘‘ کے خلاف احتجاج میں وقت ضائع نہیں کیا۔ اس نے ازسر نو اپنی تیاری کا منصوبہ بنایا۔
اٹلی کے ٹیلی وژن نیٹ ورک نے نومبر1988ء میں بن جانسن کا ایک باتصویر انٹرویو اس کی رہائش گاہ(ٹورانٹو) پر لیا جس کی تفصیل اخبارات میں شائع ہوئی ہے۔ ٹائمس آف انڈیا(29 نومبر1988ء) کے مطابق ایک سو میٹر دوڑ کے عالمی چیمپئن بن جانسن نے ٹیلی وژن کیمرہ کے سامنے روتے ہوئے کہا کہ انہوں نے جان بوجھ کر کھیل کے اصولوں کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی۔ تاہم وہ اپنی تیاری جاری رکھے ہوئے ہیں اور وہ بار سلونہ(اسپین) میں1992ء میں ہونے والے اولمپک کھیلوں میں واپس آنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کا عالمی ریکارڈ ٹریک پر 13 سال کی مسلسل محنت کا نتیجہ تھا۔ بظاہر وہ بہت افسردہ دکھائی دے رہے تھے۔ سیول اولمپک کے بعد پیش آنے والے مشکل لمحات کا ذکر کرتے ہوئے وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے۔ انٹرویو لینے والے مسٹر گیانی منولی (Gianni Minoli) نے کہا کہ شوٹنگ کا کام پانچ منٹ تک روک دینا پڑا۔ کیوں کہ بن جانسن اپنی سسکیوں پر قابو نہیں پا سکتے تھے۔ بن جانسن نے بتایا کہ ٹریک پر واپس آنے کے لیے وہ ہفتہ میں چھ دن چار گھنٹہ روزانہ ٹریننگ حاصل کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرا کام صرف دوڑنا ہے۔ بیٹھے رہنے کی بات میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ میری خواہش یہ ہے کہ میں دوبارہ مقابلہ میں حصہ لوں۔ انہوں نے میرا سونے کا تمغہ مجھ سے لیا ہے، نہ کہ میری رفتار:
They have taken away my gold medal, not my speed.
چھیننے والا ہمیشہ آپ کی کوئی چیز چھینتا ہے، نہ کہ خود آپ کو۔ آپ کا وجود اپنی پوری صلاحیتوں کے ساتھ پھر بھی آپ کو حاصل رہتا ہے۔ اس حاصل شدہ متاع کو استعمال کیجیے، اور پھر ہر محرومی کے بعد آپ اپنی ایک نئی تاریخ بنا سکتے ہیں۔