کھونے کے بعد بھی
اے پی (لندن) کی فراہم کردہ ایک خبر حسب ذیل الفاظ میں شائع ہوئی ہے— مسٹر اسٹینلی جاکی ہنگری میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک سیاہ پوش راہب، عیسائی عالم اور فزکس کے پروفیسر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دس سال تک آواز سے محرومی ان کے لیے ان کی سائنس اور مذہب سے متعلق تحریروں پر دو لاکھ 20 ہزار ڈالر جیتنے کا ذریعہ بن گئی۔ 1953ء میں میرے گلے پر سرجری کے ایک حادثہ نے مجھے وقت دیا کہ میں لکھوں اور میں سوچوں، اور ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔ بہت سے انتہائی مقبول کتابوں کے مصنف ایسے ہیں جو بالکل نہیں سوچتے، انہوں نے کہا۔ مسٹر جا کی جنہوں نے مذہب میں ترقی پر ٹمپلٹن انعام حاصل کیا ہے ، یقین رکھتے ہیں کہ عیسائیت نے وہ ذہنی فضا پیدا کی جس نے سائنس کو ترقی کا موقع دیا۔ وہ اس خیال کے سخت ناقد ہیں کہ سائنس اور خدا ایک دوسرے سے غیر متعلق چیزیں ہیں:
Mr Stanley L. Jaki, a Hungarian-born Benedictine monk, theologian and physics professor, says losing his voice for ten years helped him win a $220,000 prize for his writings on science and faith.'' A surgical mishap on my throat in 1953 gave me time to write and to think, and that's not always the case. Many writers of best-sellers don't think at all,''the scholar said. Mr Jaki who won the Templeton prize for progress in religion, holds that Christianity created the intellectual climate which allowed science to flourish. He is a stern critic of the view that science and God are unrelated. (The Times of India, New Delhi, May 14, 1987).
مسٹر جاکی کے ساتھ یہ حادثہ پیش آیا کہ غلط آپریشن کی وجہ سے ان کی بولنے کی صلاحیت ختم ہو گئی۔ مگر ان کے سوچنے اور پڑھنے کی صلاحیت بدستور باقی تھی۔ انہوں نے اس بچی ہوئی صلاحیت کو بھرپور طور پر استعمال کیا۔ دس سال کی خاموش محنت سے انہوں نے ا یک ایسی کتاب لکھی جس کا انعام سوا دو لاکھ ڈالر تھا۔ حادثہ کے بعد جو لوگ کھوئی ہوئی چیز کاغم کریں وہ صرف اپنی بربادی میں اضافہ کرتے ہیں جو لوگ حادثہ پیش آنے کے بعد بچی ہوئی چیز پر اپنی ساری توجہ لگا دیں وہ ازسرنو کامیابی کی منزل پر پہنچ جاتے ہیں۔