ذہن کی تعمیر
اقوام متحدہ کے اقتصادی اور ثقافتی ادارہ کے دستور میں جو باتیں درج ہیں، ان میں سے ایک اہم بات یہ ہے— جنگوں کی ابتدا چونکہ ذہن سے ہوتی ہیں اس لیے یہ دراصل لوگوں کے ذہن ہیںجہاں قیام امن کا مورچہ بنایاجائے:
since wars begin in the minds of men, it is in the minds of men that the defences of peace must be constructed.
(www.en.unesco.org/70years/building_peace) [accessed on 01.06.21]
یہ نہایت صحیح بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خواہ سڑک پر دو آدمیوںکا جھگڑا ہو یا میدانِ جنگ میں دو قوموںکا ٹکرائو، اس قسم کی تمام چیزیں ہمیشہ ذہن میں شروع ہوتی ہیں۔ کچھ آدمیوں کے ذہن میں غصہ، اشتعال، انتقام اور نفرت کے خیالات پیدا ہوتے ہیں۔ یہی خیالات بھڑک کر جب عملی صورت اختیار کرتے ہیں تو اسی کا نام جھگڑا یا جنگ ہے، اس لیے اگر ذہن کی سطح پر امن قائم کیا جا سکے تو عمل کی سطح پر بھی امن قائم ہو جائے گا۔
آدمی کے ذہن میں منفی خیالات ہمیشہ ردعمل کے طور پر پیدا ہوتے ہیں۔ کسی آدمی نے سخت بات کہہ دی تو آپ کو غصہ آ گیا۔ کسی نے ناخوش گوار تجربہ ہوا تو آپ مشتعل ہو گئے۔ کسی نے آپ کے وقار کو مجروح کیا تو آپ کے اندر انتقام کی آگ بھڑک اٹھی۔ یہی سب چیزیں جو ابتدا میں ذہن کے اندر پیدا ہوتی ہیں ، وہی باہر آ کر جنگ اور فساد برپا کرنے کا سبب بن جاتی ہیں۔
ایسی حالت میں انفرادی لڑائی اور قومی جنگ دونوں کو روکنے کا واحد موثر طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کے ذہنوںکی تربیت کی جائے۔ لوگوں کے اندر وہ مزاج بنایا جائے جس کومذہب میں صبر کہا جاتا ہے۔ یہ مقصد اس طرح حاصل ہو گا جب کہ لوگوں کی منفی سوچ کو ختم کیا جائے اور ان کے اندر مثبت سوچ پیدا کی جائے۔ لوگوں کے اندر یہ مزاج بنایا جائے کہ وہ اشتعال کی باتوںپرمشتعل نہ ہوں۔ وہ ناخوش گوار چیزوں میں الجھنے کے بجائے ان سے اعراض کریں۔ وہ نفرت کے جواب میں محبت کرنا سیکھیں۔ وہ ٹھنڈی سوچ کے تحت فیصلہ کریں، نہ کہ جذباتی ابال کے تحت۔
ذہن کی اصلاح عمل کی اصلاح ہے اور ذہن کی تعمیر زندگی کی تعمیر۔