مستقبل پر نظر
پبلی لیس سائرس(Pubilius Syrus) ایک لاطینی مصنف ہے۔ اس کا زمانہ پہلی صدی قبل مسیح ہے۔ وہ رومی عہد میں شام کے علاقہ میں پیدا ہوا اور روم میں وفات پائی۔ اس کا ایک قول انگریزی ترجمہ میں اس طرح نقل کیا گیا ہے— عقل مند آدمی مستقبل کی اس طرح حفاظت کرتا ہے جیسے کہ وہ حال ہو:
The wise man gurads against the future as if it were the present.
نادان آدمی کی نظر حال پر ہوتی ہے، عقل مند آدمی کی نظر مستقبل پر۔ نادان آدمی اپنے آج کے حالات میں ایک ناپسندیدہ چیز دیکھتا ہے۔ وہ اس سے لڑنے کے لیے کھڑا ہو جاتا ہے۔ عقلمند آدمی دور اندیشی سے کام لیتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ ہماری آج کی لڑائی کا انجام کل کس انداز میں نکلے گا۔ نادان آج کو دیکھ کر اقدام کرتا ہے، عقل مند وہ ہے جو مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے۔
ہر اقدام اپنے نتیجہ کے اعتبار سے مستقبل کا واقعہ ہے۔ اقدام آج کیا جاتا ہے، مگر اس کا نتیجہ ہمیشہ آئندہ نکلتا ہے۔ اس لیے یہی درست بات ہے کہ عملی اقدام کو آئندہ کے معیار سے جانچا جائے۔ آج کی کارروائی کے ٹھیک یا بے ٹھیک ہونے کا فیصلہ اس اعتبار سے کیا جائے کہ کارروائی جب اپنے انجام پر پہنچے گی تو اس کا حاصل کس صورت میں ہمارے سامنے آئے گا۔
ایک شخص کو ایک بھِڑنے کاٹ لیا۔ اب وہ غصہ ہو کر ایسا کرے کہ بھِڑوں کو سزا دینے کے لیے بھڑکے چھتہّ میں اپنا ہاتھ ڈال دے۔ اگر کوئی آدمی ایسا کرے تو اس کے بعد اس کی یہ شکایت بے معنی ہوگی کہ پہلے تو صرف ایک بھِڑنے اس کو معمولی طریقہ پر کاٹا تھا۔ اب سینکڑوں بھِڑیں اس سے لپٹ گئیں اور اس کے سارے جسم کو ڈنک مار کر زخمی کر دیا۔
یہ دنیا دانش مندوں کے لیے ہے۔ نادانوں کے لیے یہاں اس کے سوا کوئی انجام نہیں کہ وہ بے سوچے سمجھے ایک اقدام کریں اور جب اس کا برا انجام سامنے آئے تو اس کے خلاف احتجاج کرنے بیٹھ جائیں۔
’’آج‘‘ کا صحیح مصرف آج کو قربان کرنا نہیں، بلکہ آج کو استعمال کرنا ہے۔ جو لوگ اس حکمت کو جانیں وہی اس دنیا میں بڑی کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ ایک مغربی مفکر کا قول ہے کہ— اچھا سپاہی جنگ کے پہلے ہی دن لڑ کر مر نہیں جاتا، بلکہ وہ زندہ رہتا ہے تاکہ اگلے دن وہ دشمن سے لڑ سکے:
A good soldier lives to fight for the second day.
یہ قول صرف معروف قسم کی بڑی بڑی جنگوں کے لیے نہیں ہے۔ وہ روزانہ پیش آنے والے عام مقابلوں کے لیے بھی ہے۔ اگر کسی کے ساتھ آپ کی اَن بَن ہو جائے اور آپ فوراً ہی اس سے آخری لڑائی لڑنے کے لیے کھڑے ہو جائیں تو آپ ایک ’’برے سپاہی‘‘ ہیں۔ آپ اپنی زندگی میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر حالات میں آدمی’’پہلے دن‘‘ زیادہ موثر لڑائی لڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا۔ اس لیے عقل مند وہ ہے جو پہلے دن لڑائی کو اوائڈ کرے۔ وہ لڑائی کے میدان سے ہٹ کر اپنے آپ کو مضبوط اور مستحکم بنانے کی کوشش کرے۔ تاکہ یا تو اس کے مقابلے میں اس کا حریف اتنا کمزور ہو جائے کہ وہ لڑائی کے بغیر ہتھیار ڈال دے۔ یا وہ خود اتنا طاقت ور ہو جائے کہ وہ ہر معرکہ کو کامیابی کے ساتھ جیت سکے۔
اس اصول کی بہترین مثال اسلام کی تاریخ ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیغمبرانہ مدت کا نصف سے زیادہ حصہ مکہ میں گزارا۔ یہاں آپ کے مخالفین نے ہر قسم کا ظلم کیا۔ مگر آپ نے ان سے ٹکرائو نہیں کیا۔ آپ یک طرفہ طور پر صبر کرتے رہے۔ مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد جب پھر انہوں نے ظلم کیا تو آپ نے اپنی فوج کو منظم کرکے ان سے جنگ کی۔ اس کے بعد دوبارہ حدیبیہ کے موقع پر جنگ سے رک گئے، اس کے بعد جلد ہی وہ وقت آیا کہ دشمن نے کسی لڑائی کے بغیر ہتھیار رکھ کر اپنی شکست مان لی۔
’’پہلے دن آپ نے دشمن کے خلاف صبر کیا۔‘‘ ’’دوسرے دن ‘‘ آپ نے دشمن سے مسلح مقابلہ کیا اور اس کے اوپر کامیابی حاصل کی۔ حدیبیہ کے’’دوسرے دن‘‘ تو مقابلہ کی نوبت ہی نہیں آئی۔ دشمن نے بلامقابلہ شکست مان کر اپنے ہتھیار رکھ دیے۔