تعمیر کی طاقت
مئی1990ء کا واقعہ ہے۔ کراچی کی ایک سڑک پر دونوں طرف سے گولیاں چل رہی ہیں۔ سڑک کے دونوں طرف لوگ زخمی ہو رہے ہیں۔ لاشیں زمین پر پڑی ہوئی نظر آتی ہیں۔ کلاشنکوف (Kalashnikov) کے ذریعہ مہاجروں اور سندھیوں میں فائرنگ کے تبادلے ہو رہے ہیں۔ پولس کے افراد بھی خوف زدہ ہو کر پیچھے ہٹ گئے ہیں۔
اتنے میں سائرن کی آواز آتی ہے۔ جلد ہی ایک ایمبولنس گاڑی سڑک پر دوڑتی ہوئی نظر آنے لگتی ہے۔ جیسے ہی ایمبولنس سامنے آتی ہے، دونوں طرف کے لوگ اپنی اپنی فائرنگ روک دیتے ہیں۔ ایمبولنس کھڑی ہوتی ہے، اس کے آدمی مردہ لاشوں کو اور زخمیوں کو اٹھا کر اپنی گاڑی میں رکھتے ہیں۔ اس پوری کارروائی کے دوران لڑائی بند رہتی ہے۔ جب ایمبولنس چلی جاتی ہے تو دوبارہ وہی لوگ اس طرح لڑنا شروع کر دیتے ہیں جیسے کہ وہ ایک دوسرے کے جانی دشمن ہوں۔
یہ کراچی کے عبدالستار ایدھی(پیدائش1928) ہیں۔ انہوں نے اپنی 30 سال کی بے غرضانہ خدمت سے لوگوں کے اندر اتنا احترام پیدا کیا ہے کہ جہاں وہ پہنچ جائیں، وہاں لوگوں کے سر ان کے آگے جھکنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، خواہ وہ فسادی اور دہشت گرد کیوں نہ ہوں۔
عبدالستار ایدھی کی تعلیم صرف چھٹے درجہ تک ہو سکی تھی۔1947ء میں وہ جونا گڑھ سے نقل وطن کرکے پاکستان چلے گئے۔ وہاں وہ حصول معاش کے لیے معمولی کام کرتے رہے۔ پھر انہوں نے دیکھا کہ پاکستان میں ایمبولنس سروس بہت کمزور ہے۔ ان کے اندر خدمت خلق کا جذبہ پیدا ہوا۔ انہوں نے قرض اور چندہ کی مدد سے ایک پرانا ٹرک خریدا اور اس کے اوپر پردہ لگا کر اس کو ایمبولنس گاڑی کے طور پر استعمال کرنے لگے۔
زخمیوں اور مریضوں کو ہسپتال لے جانا، لاوارث لاش کو قبرستان پہنچانا، اس قسم کے رفاہی کاموں میں سرگرم ہوگئے۔ ان کے خلوص اور محنت کو دیکھ کر لوگوں نے تعاون کرنا شروع کیا۔ انہوں نے مزید ایمبولنس گاڑیاں خریدیں۔ یہاں تک کہ اب ان کے پاس350 گاڑیوں کا دستہ ہے جو سب کی سب سائرن، وائرلیس، گیس سلنڈر وغیرہ سے لیس ہیں۔ ان کے علاوہ انہوں نے دو ہیلی کاپٹر خریدے ہیں تاکہ دور تک کے ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کر سکیں۔
اسی کے ساتھ انہوں نے ہسپتال، زچہ گھر، یتیم خانے اور مختلف قسم کے رفاہی مراکز قائم کر رکھے ہیں، اب انہوں نے گیارہ ایکڑ کی ایک زمین حاصل کی ہے۔ یہاں وہ اپنے تمام شعبے قائم کریں گے۔ اسی کے ساتھ اس کے اندرہیلی کاپٹر کو ٹھہرانے اور اتارنے کا میدان بھی بنایا جائے گا۔
30 سال پہلے عبدالستار ایدھی کی مفلسی کا یہ عالم تھا کہ ان کی ماں بیمار ہوئی تو نہ ان کے پاس دوا لانے کے پیسے تھے اور نہ ماں کو ہسپتال لے جانے کا سادھن۔ ان کی ماں نہایت تکلیف کی حالت میں مر گئی۔ مگر ماں کی موت نے ان کو ایک نئی زندگی دے دی۔ اس سے ان کو سخت جھٹکا لگا۔ انہوں نے سوچا کہ اسی طرح کتنے غریب ہوں گے جو تکلیف میں تڑپتے ہوں گے، مگر کوئی ان کی مدد کرنے والا نہ ہوگا۔
انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ضرورت مندوں کی مدد کے لیے خدمت خلق کا ایک ادارہ قائم کریں گے۔30 سال پہلے یہ ادارہ انہوں نے نہایت معمولی حالت سے شروع کیا تھا۔ آج وہ اتنا بڑھ چکا ہے کہ اس کا سالانہ بجٹ بارہ کروڑ روپیہ ہے۔ جس شخص کا حال یہ تھا کہ مرض الموت میں مبتلا اپنی ماں کی دوا خریدنے کے لیے اس کے پاس پیسے نہ تھے، وہ آج اپنے مرکز میں7500 آدمیوں کے لیے کھانا اور کپڑا فراہم کر رہا ہے۔
عبدالستار ایدھی کو عالمی انعام(Magsaysay Award) دیا گیا ہے۔ امریکہ کے کثیر الاشاعت ماہنامہ ریڈرس ڈائجسٹ(جون1989ء) نے ان کے بارہ میں ایک تعریفی مضمون شائع کیا تھا جس کا خلاصہ الرسالہ(فروری1990ء) میں آ چکا ہے۔ نئی دہلی کے انڈیا ٹو ڈے (30 جون1990ء) نے سات صفحہ کی ایک باتصویر رپورٹ شائع کی ہے۔ ان کا عنوان یہ ہے___ پاکستان کا فادر ٹریسا:
Pakistan`s Father Teresa
تعمیر کام اپنے اندر بے پناہ کشش رکھتا ہے۔ اگر آپ واقعی معنوں میں کسی تعمیری کام کا نمونہ پیش کر دیں تو تمام لوگ آپ کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو جائیں گے، حتی کہ آپ کے کٹر مخالفین بھی۔
عبدالستار ایدھی کے لیے ایک نمونہ وہ تھا جو سطحی لیڈروں نے ہندوستان اور پاکستان دونوں جگہ پیش کیا ہے۔ یعنی’’نظام‘‘ کے خلا ف نعرہ اور جھنڈا کی سیاست لے کر کھڑا ہو جانا۔ وہ تیسرے درجہ کا ایک اخبار نکالتے اور موٹی موٹی سرخیوں کے ساتھ عوام کی مصیبت کی داستانیں چھاپنا شروع کر دیتے۔ وہ حکومتی اداروں سے مطالبات کی مہم چلاتے۔ وہ غصہ میں بھرے ہوئے نوجوانوں کی ایک بھیڑ جمع کرتے جو احتجاج کے نام پر بسیں جلاتا اور ہسپتالوں میں آگ لگاتا۔
اسی طرح عبدالستار ایدھی کے لیے ایک نمونہ وہ تھا، جو نام نہاد اسلام پسندوں نے پیش کیا ہے۔ وہ ’’اسلامی نظام قائم کرو‘‘ کے نعرہ کے ساتھ سڑکوں پر نکل پڑتے۔ وہ عوام اور حکومت کے درمیان وہی نفرت اور کشاکش کا ماحول بناتے جو موجودہ اسلام پسندوں نے مجرمانہ طور پر ہر جگہ بنا رکھا ہے۔
عبدالستار ایدھی اگر اس قسم کے طریقے اختیار کرتے تو وہ اپنے ملک کے مسائل کو حل کرنے کے نام پر صرف اس کے مسائل میں اضافہ کرتے۔ اس کے برعکس، انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ خود اس مسئلہ کو حل کرنے کی ذمہ داری سنبھالیں گے۔ ان کا کام خواہ کتنا ہی چھوٹا ہو، مگر وہ خود اپنے آپ سے عمل کا آغاز کریں گے۔
عبدالستار ایدھی کے اس فیصلہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ 40 برس بعد انہوں نے پاکستان میں ایک ایسی تعمیری تاریخ بنائی جس کا ہندوستان سے لے کر امریکہ تک اعتراف کیا جا رہا ہے۔ جب کہ اسی مدت میں اسی ملک کے دوسرے رہنما بربادی اور تخریب کے سواکوئی اور تاریخ نہ بنا سکے۔