فطرت کی طرف
نفسیات کے ایک عالم نے کہا کہ تم ہر جگہ اپنے دوست پا سکتے ہو مگر تم ہر جگہ اپنے دشمن نہیں پا سکتے۔ دشمن تم کو خود بنانا پڑے گا:
You can meet friends everywhere but you cannot meet enemies everywhere- you have to make them.
یہ بات نہایت درست ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دوستی معمول کی حالت ہے، اور دشمنی ایک خلاف معمول حالت۔ دو آدمی سادہ طور پر ایک ساتھ رہیں تو ان کی فطرت انہیں دوستی ہی کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ دشمنی ہمیشہ اس وقت شروع ہوتی ہے جب دونوں میں سے کوئی شخص ناگوار قول یا عمل کے ذریعہ دوسرے شخص کو بھڑکا دے۔
جب بھی کسی کے ساتھ آپ کی دشمنی قائم ہو جائے تو اس کو مستقل نہ سمجھ لیجیے۔ فطرت کے قانون کے مطابق دوستی کی حالت مستقل حالت ہے ، نہ کہ دشمنی کی حالت۔ آپ وقتی حالت کودوبارہ مستقل حالت کی طرف لے جانے کی کوشش کیجیے۔ آپ یقیناً کامیاب ہوں گے، بشرطیکہ آپ نے اس کے لیے حکیمانہ طریقہ اختیار کیا ہو۔ دوستی کی حالت چونکہ مستقل انسانی حالت ہے، اس لیے جب کوئی شخص دشمنی سے دوستی کی طرف جانا چاہے تو فطرت کا پورانظام اس کے ساتھ رہتا ہے۔ ا یسی کوشش میں وہ تنہانہیں ہوتا بلکہ اپنے باہر کی پوری دنیاکووہ اپنا ہمنوا بنا لیتا ہے۔ اور جس آدمی کی ہم نوا پوری کائنات ہو جائے اس کے لیے ناکامی کا کوئی سوال نہیں۔
اس دنیا میں سب سے طاقت ور چیز فطرت ہے۔کسی چیز کی جو فطرت اس کے خالق نے لکھ دی ہے اس سے ہٹنا اس کے لیے ممکن نہیں۔ جمادات، نباتات، حیوانات ، سب کے سب اپنی مقرر کی ہوئی فطرت پر چلتے ہیں، وہ کبھی اس سے نہیں ہٹتے۔ یہی حال انسان کا ہے۔ انسان کے اندر بھی سب سے زیادہ طاقت ور چیز اس کی فطرت ہے۔ آپ اگر فطرت کا اسلوب اختیار کریں تو آپ سرکش ترین انسان کو بھی مسخر کر سکتے ہیں۔