ایک واقعہ
1940ء کا واقعہ ہے۔ مشرقی یوپی کا ایک زمیندار گائوں کے موچی پر غصّہ ہو گیا۔ موچی نے اس کے جوتے کی مرمت میں دیر کر دی تھی۔ موچی کو زمیندار کے مکان پر بلایا گیا۔ زمیندار ایک ڈنڈا لے کر کھڑا ہوا اور موچی کو حکم دیا کہ اپنا کرتا اتار دے۔ موچی نے فوراً حکم کی تعمیل کی۔ اس نے نہ صرف کرتا اتارا بلکہ اپنی پیٹھ زمیندار کی طرف کر کے خاموش بیٹھ گیا تاکہ زمیندار بہ آسانی اس کے اوپر ڈنڈا برسا سکے۔ اولاً جب موچی زمیندار کے سامنے آیا تو وہ اس کو دیکھتے ہی بے حد خفا ہو گیا تھا۔ مگر جب موچی نے کوئی جواب نہ دیا اور خاموشی سے ننگی پیٹھ سامنے کر کے بیٹھ گیا تو زمیندار کو اس پر رحم آگیا۔ اس نے اپنا ڈنڈا الگ رکھ دیا اورموچی کو یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ جائو،اب ایسی غلطی مت کرنا۔
1940ء کے زمانہ کو سامنے رکھ کر دیکھیے تو موچی اس وقت مکمل طور پر بے بس تھا، اورزمیندار اس کے اوپر ہر قسم کا اختیار رکھتا تھا۔ پھرکیا چیز تھی جس نے ایک بااختیار کے ظلم سے ایک بے اختیار کو بچا لیا۔ یہ وہ ضمیر تھا جس کو قدرت نے ہر انسان کے اندر رکھ دیا ہے، خواہ وہ اچھا ہو یا برا۔ موچی نے جب زمیندار کے آگے اپنے کو جھکا دیا تو اس کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا۔ اب اس کا ضمیرزندہ ہو کر کام کرنے لگا جس کے اوپر غصہ نے وقتی پردہ ڈال دیا تھا۔
اس کے برعکس، موچی اگرزمیندار سے تیز زبانی کرتا یا اس سے مزاحمت کرتاتو وہ زمیندار کے غصہ کو بڑھا کر اس کے ضمیر کو بالکل دبا دیتا اوراس طرح اپنے کو اس قیمتی مددگار سے محروم کر لیتا جو ہر ظالم کے دل میں آخری طور پر مظلوم کے لیے رکھ دیا گیا ہے۔ اس دنیا کے بنانے والے نے اس کا نظام بڑی عجیب حکمتوں کے ساتھ بنایا ہے۔ یہاں ایک شخص کے لیے اس وقت بھی کوئی نہ کوئی محفوظ سہارا موجود ہوتا ہے جب کہ بظاہر وہ بالکل بے سہارا ہو چکا ہو۔ بشرطیکہ وہ کوئی نادانی کر کے اپنے آپ کو اس آخری سہارے سے محروم نہ کر لے۔
زمیندار کے پاس اگر اپنی طاقت تھی تو موچی کے پاس خدا کی طاقت تھی۔ اور کون ہے جو خدا کی طاقت کے آگے ٹھہر سکے۔ ہر انسان کے اندر ضمیر ہے۔ یہ ضمیر خدا کی عدالت ہے۔ آپ اپنا مقدمہ اس خدائی عدالت میں لے جائیے۔ اور پھر کبھی آپ کو کسی سے ظلم کی شکایت نہ ہو گی۔