امکان ختم نہیں ہوتا
ایک امریکی نوجوان ڈیوٹ ویلس(Dewitt Wallace, 1889-1981) نے ارادہ کیا کہ وہ ایک ماہانہ ڈائجسٹ نکالے۔ اپنے والد سے اس نے ابتدائی سرمایہ کے طور پر300 ڈالر مانگا۔ مگر والد نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ڈیوٹ پیسہ کو استعمال کرنا نہیں جانتا، وہ اسے ضائع کر دے گا۔ بمشکل اس نے اپنے بھائی سے کچھ رقم حاصل کی اور جنوری1920ء میں نمونہ کا شمارہ چھاپا جو چند سو نسخوں سے زیادہ نہ تھا۔
اب ڈیوٹ کے سامنے دوسرا مسئلہ تھا۔ اس نے اپنا میگزین نیویارک کے پبلشنگ اداروں کو دیکھایا اور کہا کہ اس کو فروخت کرنے میں وہ اس کا تعاون کریں۔ مگر تمام اداروں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ میگزین بہت زیادہ سنجیدہ(too serious) ہے اور اتنے زیادہ سنجیدہ پرچہ کے لیے مارکیٹ موجود نہیں۔
یہ بڑا نازک مسئلہ تھا۔ کیوں کہ اخبارات ورسائل پبلشنگ اداروں ہی کے ذریعہ عوام تک پہنچتے ہیں، اور پبلشنگ اداروں نے ڈیوٹ کو تعاون دینے سے انکار کر دیا تھا۔ تاہم ایک امکان بدستور ابھی ڈیوٹ کے لیے باقی تھا۔ وہ یہ کہ وہ خریداروں تک براہ راست پہنچے۔ اس نے بہت سے پتے حاصل کرکے لوگوں کو براہ راست خطوط لکھے۔ اسی کے ساتھ اس نے اخبارات میں اشتہار شائع کیا۔ عام حالات میں ایک نئے اور غیر معروف میگزین کے لیے اس طرح خریدار حاصل کرنا بظاہر ناممکن تھا۔ مگر ڈیوٹ کی ایک تدبیر نے اس ناممکن کو ممکن بنا دیا۔ اس نے اپنے خطوط اور اپنے اشتہارات میں جو باتیں لکھیں۔ ان میں سے ایک بات یہ تھی:
The subscription could be cancelled and all money refunded if the reader wasn`t satisfied. (p.163)
قاری اگر میگزین کو پڑھنے کے بعد اس سے مطمئن نہ ہو تو خریداری ختم کر دی جائے گی اور اس کی پوری رقم اسے واپس کر دی جائے گی۔
اس پیش کش کا نتیجہ یہ ہوا کہ ڈیوٹ کے پاس خریداری کی فرمائش اور منی آرڈر آنا شروع ہوگئے۔ پہلے ہی مرحلہ میں اس نے اتنی رقم حاصل کر لی جس سے دو ماہ کا شمارہ بہ آسانی چھاپا جا سکے۔
ڈیوٹ کا منصوبہ کامیاب رہا۔ کسی ایک شخص نے بھی اپنی خریداری ختم نہیں کی۔ کسی نے بھی رقم کی واپسی کا مطالبہ نہیں کیا۔ اس نے عام خریداروں تک پہنچنے کی کوشش کو تیز تر کر دیا فروری1922 میں اس کا میگزین ہزار کی تعداد میں شائع ہوا تھا۔ اس کے بعد وہ برابر بڑھتا رہا، یہاں تک کہ 1987 میں وہ 28 ملین سے زیادہ تعداد میں دنیا کی پندرہ زبانوں میں139یڈیشن شائع کر رہا ہے۔یہ وہی ماہانہ میگزین ہے جو آج ساری دنیا میں ریڈرز ڈائجسٹ(Reader`s Digest) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اب وہ دنیا کا سب سے زیادہ پڑھا جانے والا میگزین بن چکا ہے۔1980 میں ڈیوٹ اور اس کی بیوی پچاس ہزار ملین ڈالر کے مالک تھے۔
ڈیوٹ نے اپنے میگزین کے لیے اس طرح خریدار فراہم کیے کہ اس نے اپنے میگزین کو خریداروں کے لیے ’’مفت‘‘ بنا دیا۔ ہرآدمی پیسہ ڈوب جانے کے اندیشہ کے بغیر اس کا خریدار بن سکتا تھا۔ تاہم خود اس تدبیر کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے لیے ایک اور تدبیر ضرور تھی۔ اگر یہ دوسری تدبیر موجود نہ ہوتی تو صرف پہلی تدبیر اس کی ناکامی میں اضافہ کے سوا اسے کچھ اور دینے والی ثابت نہ ہوتی۔
یہ دوسری تدبیر وہی تھی جس کو اعلیٰ معیار کہا جاتا ہے۔ یعنی میگزین کو معیار کے اعتبار سے ایسا بنا دینا کہ پڑھنے کے بعد قاری کو وہ واقعۃً پڑھنے کی چیز نظر آئے۔ وہ اس کو دیکھنے کے بعد یہ سمجھے کہ اس کی خریداری کے لیے جو رقم اس نے بھیجی ہے وہ صحیح بھیجی ہے، اور اس کو اپنی خریداری جاری رکھنا چاہیے۔
اپنے میگزین میں یہ دوسری صفت پیدا کرنے کے لیے ڈیوٹ کو غیر معمولی محنت کرنی پڑی۔ اس کا ماہنامہ ایک ڈائجسٹ تھا۔ یعنی مختلف مطبوعہ مضامین کا انتخاب۔ ڈیوٹ یہ منتخب مضامین حاصل کرنے کے لیے روزانہ چالیس سے زیادہ میگزین پڑھتا تھا۔ کچھ خرید کر اور کچھ مختلف لائبریریوں میں جا کر۔ اس پُر مشقت عمل کے لیے ڈیوٹ کو طعن و طنز بھی سننے پڑتے تھے۔ مثلاً بہت سے لوگ اس کو محض قینچی ایڈیٹر(Scissors-and-paste editor) کہنے لگے۔ مگر ہر مخالف بات کو نظر انداز کرتے ہوئے اس نے اپنا کام جاری رکھا۔
ڈیوٹ ویلس کے سوانح نگار نے اس کی کامیابی کا راز ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
What made him supernormal was his intense, sustained curiosity, plus and unequalled capacity for work. (p. 182)
جس چیز نے اس کو غیر معمولی بنایا وہ اس کا گہرا اور دائمی تجسس تھا، مزید یہ کہ وہ کام کرنے کی بے پناہ طاقت رکھتا تھا۔ ڈیوٹ ویلس کے ایک دوست نے اس کے بارے میں کہا کہ جتنا وہ بولتا ہے اس سے بہت زیادہ وہ سنتا ہے:
He listens far more than he talks.
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ اس دنیا میں مواقع اور امکانات اتنے زیادہ ہیں کہ ان کی فہرست کبھی ختم نہیں ہوتی۔ جب بھی ایک امکان ختم ہو تو آدمی کو فوراً دوسرے امکان کی تلاش میں لگ جانا چاہیے۔ آدمی اگر ایسا کرے تو وہ پائے گا کہ جہاں حالات نے بظاہر اس کی ناکامی کا فیصلہ کر دیا تھا، وہیں اس کے لیے ایک نیا شاندار تر امکان موجود تھا جس کو استعمال کرکے دوبارہ وہ اپنی کامیابی کی منزل تک پہنچ جائے۔